لاہور (جدوجہد رپورٹ) اخلاقی پولیس کی حراست کے دوران 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں مظاہروں نے ملک کے تمام حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس میں وہ علاقے بھی شامل ہیں، جہاں ریاست کے خلاف دیرینہ شکایات رکھنے والی نسلی اقلیتیں رہتی ہیں۔
’رائٹرز‘ کے مطابق حکام نے ان میں سے کچھ اقلیتوں کے مسلح مخالفین پر احتجاج کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان الزامات کا مقصد مظاہروں کو ملک گیر بغاوت کے بجائے نسلی بدامنی کے طور پر پیش کرنا اور کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کرنا ہے۔ مظاہرین نے ’ترک، کرد، عرب، لور متحد ہیں‘ جیسے نعروں کے ساتھ قومی اتحاد پر زور دیا۔
87 ملین آبادی پر مشتمل ایران اکثریتی فارسیوں کے علاوہ 7 نسلی اقلیتوں کا گھر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کو طویل عرصہ سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے، تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔
ایران کے کچھ نسلی گروہوں کا مختصر پس منظر درج ذیل ہے:
بلوچ
اب تک کی سب سے مہلک بدامنی 30 ستمبر کو جنوب مشرقی ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں پاکستانی سرحد پر دیکھی گئی، جو بلوچ اقلیت کا علاقہ ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے صوبائی دارالحکومت زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد پرتشدد کریک ڈاؤن میں کم از کم 66 افراد کو ہلاک کر دیا۔
حکام نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے ایک پولیس اسٹیشن پرحملہ کیا، جس سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ پاسداران انقلاب نے کہا کہ فورسز کے 5 ارکان تشدد کے دوران ہلاک ہوئے۔
ایران نے اس فائرنگ کا الزام جیش العدل یا آرمی آف جسٹس پر عائد کیا ہے، جو ایک بلوچ عسکریت پسند گروپ ہے۔ نہ تو جیش العدل اور نہ ہی کسی دوسرے گروپ نے کسی کردار کا تاحال کوئی دعویٰ کیا ہے۔
بلوچ اقلیت، جن کی تعداد 20 لاکھ تک بتائی جاتی ہے، ایرانی حکمران ملاؤں کے شیعہ فرقہ کی بجائے سنی فرقہ کی پیروی کرتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رواں سال کے آغاز میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2022ء سے اب تک حکام کی جانب سے سزائے موت پانے والے 26 فیصد افراد بلوچ اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دہائی سے ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور جبر کی ایک علامت ہے۔
جیش العدل کا موقف ہے کہ وہ ایرانی فورسز پر سیستان بلوچستان میں سنی مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کیلئے حملے کرتے ہیں۔ تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ گروپ پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے کام کرتا ہے اور اس نے بار بار پڑوسی ملک سے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
کرد
موجودہ تحریک خاص طور پر کرد علاقوں میں شدید رہی ہے، جہاں مظاہروں کی تازہ ترین لہر پہلی بار 17 ستمبر کو اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی مہسا امینی کی آخری رسومات کے دوران شروع ہوئی۔
انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے مظاہروں کے دوران حکومتی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے کم از کم 32 شہریوں کی ہلاکتیں ریکارڈ کی ہیں۔
تقریباً 10 ملین افراد پر مشتمل ایرانی کرد بھی سنی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ تر ترکی اور عراق کی سرحد سے متصل شمال مغربی علاقوں میں رہتے ہیں۔ عراق اور ترکی میں بھی بڑی تعداد میں کرد اقلیتیں رہتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ کردوں کو ایران میں گہری امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کو دبایا گیا ہے اور خطے کو اقتصادی طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
پاسداران انقلاب یہاں بھی مسلح ایرانی کرد مخالفین پر مظاہروں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتی ہے۔ عراقی حکام کے مطابق پاسداران انقلاب نے عراق میں کرد علاقوں میں ڈرون اور میزائل حملے کئے ہیں، جن میں 28 ستمبر کو کم از کم 1 بچے سمیت 14 افراد ہلاک ہوئے۔
عرب
ایران کے عربوں کی تعداد 1.6 ملین بتائی جاتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر عراق کی سرحد کیساتھ جنوب مغربی تیل کی دولت سے مالامال صوبہ خوزستان میں مقیم ہیں۔ وہ طویل عرصہ سے ملازمت اور سیاسی حقوق میں عدم مساوات کی شکایات کرتے رہے ہیں۔
حالیہ مظاہروں کے دوران مظاہرین صوبائی دارالحکومت اہواز کی سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
2021ء میں خوزستان کے علاقے میں پانی کی قلت پر ہونے والے مظاہرے خاص طور پر شدید تھے۔ اس علاقے میں خشک سالی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
ایران سنی عرب ریاستوں پر خطے میں بحران پیدا کرنے میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کرتا رہتا ہے۔ 2018ء میں ایران نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر اہواز میں ہونے والے حملے کا الزام عائد کیا، جس میں 25 افراد ہلاک ہوئے، ہلاک شدگان میں نصف پاسداران انقلاب کے اراکین تھے۔
تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کسی بھی کردار کی تردید کی ہے۔