خبریں/تبصرے

کھاد کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ: ملک میں غذائی بحران کا شدید خطرہ

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے نتیجے میں کھاد کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، جس وجہ سے زراعت اور غذائی تحفظ کو پہلے سے زیادہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

’ڈان‘ کے مطابق مارکیٹ کے رجحانات کے مطابق ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی پی اے) فی بوری 11500 سے 12500 روپے کے درمیان فروخت ہو رہی ہے۔ سلفیٹ آف پوٹاش (ایس او پی) کا ایک تھیلا 16000 روپے تک پہنچ گیا ہے اور موریٹ آف پوٹاش (ایم او پی) کی قیمت 1100 روپے فی بوری تک پہنچ گئی ہے۔ یوریا اگرچہ طلب سے باہر ہے پھر بھی 2200 روپے فی بیگ ہے۔

اینگرو فرٹیلائزر نے گزشتہ ہفتے ڈی اے پی کی قیمتوں میں 12100 روپے فی بیگ اضافہ کیا، جو کہ فوجی فرٹیلائزر کی فروخت سے 700 روپے زیادہ ہے۔ ایس او پی پچھلے ہفتے تک 11000 روپے فی تھیلا فروخت ہو رہا تھا، جو 5000 روپے فی بیگ بڑھ کر 16000 روپے میں فروخت ہوا۔ ایم او پی کی قیمتوں میں 4000 روپے سے 11000 روپے تک سب سے بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یوریا کی فی بوری قیمت 1850 روپے تھی، لیکن ڈیلروں کو اسے 1950 روپے فی تھیلا فروخت کرنے کی اجازت تھی۔ اب پنجاب کے مختلف مقامات پر 2100 سے 2200 روپے فی تھیلا فروخت ہو رہی ہے۔

کسانوں نے خبردار کیا ہے کہ کھاد کی اس قسم کی قیمیں پورے شعبے کو تجارتی طور پر ناقابل عمل بنا سکتی ہیں۔ چاول کی کاشت شروع ہونے والی ہے۔ توقع ہے کہ یہ اس کا پہلا شکار ہو گا۔ جولائی اگست میں بوئی جانے والی مکئی کی اگلی باری ہو گی۔ اگر چاول سب سے پہلے شکار ہوتے تو سب سے زیادہ نقصان گندم کا ہوتا ہے۔ موجودہ قیمت 2200 روپے فی من پر گندم کی کاشت ناممکن ہے۔ کھاد کی ان قیمتوں کے ساتھ گندم تجارتی معنی نہیں رکھتی، یہاں تک کہ 3000 روپے فی من قیمت ہی کیو ں نہ مقرر ہو جائے۔

کسانوں نے خبردار کیا کہ کسانوں کی اکثریت یقینی طو رپر گندم کے سیزن سے محروم ہو جائیگی اور ملک اس سے بھی بدتر غذائی تحفظ کی تباہی کا شکار ہو جائیگا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کرے، ورنہ کاشتکاری اور ملک کو اس سے بھی بڑے اور گہرے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری طرف صنعت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے الزام روپے کی گردی ہوئی قدر پر ڈال دیا۔ انکا کہنا تھا کہ ”اگر ایس او پی یا ایم وی پی کی فری آن بورڈ قیمت 1000 ڈالر فی ٹن تک پہنچ جائے اور روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 200 روپے سے زیادہ ہو جائے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔“

انکا کہناتھا کہ ”اس قیمت پر ہر بیگ کی قیمت 10000 روپے ہے۔ اس قیمت کا حساب لگانا اس وقت آسان ہو جاتا ہے جب آپ پورٹ چارجز، ان لوڈنگ، لوڈنگ، اندرون ملک نقل و حمل، درآمد کنندگان کا مارجن اور ڈیلرز کا منافع شامل کرتے ہیں۔ لہٰذا بنیادی طو رپر یہ ایک ڈالر کا رجحان ہے جو سپلائی اور زراعت کی زنجیروں میں کئی گناہ تباہی پھیلا رہا ہے۔“

انکا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ مساوات خراب ہوئی تو کھاد کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ یہ اعلیٰ رجحان زراعت کو اس براہ راست تباہی سے زیادہ سنگین نقصان پہنچا رہا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts