حارث قدیر
سابق فاٹا کے علاقے جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کو ایک سال 11 ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا یہ ایک ایسا مقدمہ ہے کہ جس میں کھلے عام ایک منتخب عوامی نمائندے کو مسلسل جیل میں رکھے جانے کیلئے قانونی موشگافیوں کا خوب مہارت سے استعمال کیا جا رہا ہے تاہم انصاف کے مندروں سے اقتدار کے ایوانوں تک سب آنکھیں موندے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ جیسے انہیں کچھ خبر ہی نہیں ہے۔
علی وزیر اس وقت ایک ایسا انقلابی استعارہ بن چکے ہیں کہ جس کے خلاف حکمران طبقات کے سارے نمائندگان تمام تر آپسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ’ایک پیج‘ پر نظر آ رہے ہیں۔ بظاہر پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برسانے میں پیش پیش ہیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادتوں کی سیاست ہی ایک دوسرے کے خلاف نظر آتی ہے مگر علی وزیر کے معاملے پر دونوں جماعتوں کی حکومتیں باہمی تعاون اور ہم آہنگی کا بے مثال مظاہرہ کر رہی ہیں۔
حکمران اتحاد کی سب سے اہم جماعت مسلم لیگ ن بھی علی وزیر سے متعلق مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، حکمران اتحاد کے ڈمی سربراہ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت بھی خاموش ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی سابق وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم کی موجودہ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتیں ماضی میں بھی علی وزیر کے نام سے نا آشنا تھیں، آج بھی یہی صورتحال ہے۔
علی وزیر کا سب سے بڑا قصور یہ نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہونے والے قتل عام پر شکوہ کناں ہے، علی وزیر کا یہ قصور بھی اتنا بڑا نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کا بطور تذویراتی ہتھیار استعمال کرنے کی ریاستی پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہے، بلکہ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ متذکرہ بالا مسائل پر سراپا احتجاج ہونے کے ساتھ ساتھ ان مسائل کی وجوہات اور پس پردہ مقاصد کا تذکرہ بھی کر رہے ہیں۔
علی وزیراس نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور اس نظام کے جتنے حاشیہ بردار ہیں، علی وزیر ان سب کیلئے ایک دشمن کی طرح ہے۔ علی وزیر اس ملک کے محنت کشوں کو بلا رنگ، نسل، مذہب،قوم، زبان متحد کرنے کی بات کرتا ہے اور علی وزیر کی یہی کوشش اس نظام سے استفادہ حاصل کرنے والے حکمران طبقات کے تمام نمائندوں کو ایک ہونے پرمجبور کرتی ہے۔
علی وزیر کے خلاف مقدمات خیبر پختونخوا میں بھی درج تھے، کراچی میں بھی درج تھے۔ تاہم گرفتاری پشاور سے کی گئی اور کراچی منتقل کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ کراچی میں مقدمہ درج ہے۔ ایک مقدمہ سے ضمانت ہوئی تو دوسرے میں گرفتاری ظاہر کی گئی، اس میں ضمانت ہوئی تو تیسرے، پھر چوتھے میں بھی ضمانت ہو گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی میں درج چاروں مقدمات میں ضمانت، ایک مقدمہ میں باعزت بری کئے جانے کے باوجود علی وزیر کراچی کی سنٹرل جیل میں قید ہیں۔
اب کی بار مقدمات خیبر پختونخوا میں درج ہیں، سماعت بنوں اور ڈی آئی خان میں ہو رہی ہے۔ تاہم علی وزیر کراچی کی سنٹرل جیل میں ہی مقید ہیں۔ میرانشاہ میں درج مقدمہ بھی ضمانت ہو چکی ہے، مگراب گرفتاری چھٹے مقدمہ میں ظاہر کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔ یوں ایک اور مقدمہ میں ضمانت کیلئے عدالتی سماعتوں کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ ابھی تک علی وزیر کی ضمانتوں کی رقم 29 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
پنجاب سے تحریک انصاف کے کارکنوں کا اسلام آباد میں داخلہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ کے پی اور پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کیلئے عدم تعاون کی تمام حدیں پار کیں۔ تاہم اسی وفاقی حکومت میں شامل پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی کے پی حکومت کے مابین علی وزیر کے معاملہ میں کمال ہم آہنگی چل رہی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ بنوں بنچ میں علی وزیر کی درخواست ضمانت پر فیصلہ قریب آیا تو کے پی حکومت نے علی وزیر کے خلاف ڈی آئی خان تھانے میں درج مقدمہ اوپن کرنے کی کارروائی شروع کر دی۔ سندھ حکومت کے محکمہ داخلہ نے فوراً ہی یعنی 26 اکتوبر کو آئی جی سندھ کو مکتوب لکھ دیا کہ علی وزیر کو ڈی آئی خان تھانے میں درج مقدمہ میں ٹرانسفر کر دیا جائے۔
تاہم آئی جی سندھ نے محکمہ داخلہ کے اس مکتوب پر فوری عمل درآمد نہیں کیا، بلکہ اس وقت کا انتظار کیا جب علی وزیر کی درخواست ضمانت پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ قریب آ گیا۔ 10 نومبر کو علی وزیرکو چھٹے مقدمہ میں ٹرانسفر کیا گیا اور 14 نومبر کو پانچویں مقدمہ میں ان کی درخواست ضمانت منظور کر لی گئی۔ جب ضمانتی مچلکے جمع ہو چکے تو پھر معلوم ہوا کہ علی وزیر کو ابھی بھی رہائی نہیں مل پائے گی۔
علی وزیر کے خلاف ہر جگہ درج مقدمات میں عائدکئے گئے الزامات اور درج کی گئی دفعات بھی ایک ہی نوعیت کی ہیں۔ ان میں سے ایک مقدمہ میں وہ باعزت بری ہو چکے ہیں۔ ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت منظور کر رکھی ہے، ایک مقدمہ میں سندھ ہائی کورٹ نے اور ایک مقدمہ میں پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کر رکھی ہے۔ پھر بھی اسی نوعیت کے نئے مقدمات کھولے جا رہے ہیں اور ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعتوں کا ایک لمبا سلسلہ چل رہا ہے۔
یوں علی وزیر اس ملک کے ایک ایسے سیاسی قیدی بن چکے ہیں، جن کے خلاف حکمران اشرافیہ کے تمام نمائندگان ایک پیج پر ہیں۔ اس نظام کی سب سے بڑی محافظ یعنی ریاست کاکردارمرکزی ہے۔ علی وزیر نے ہر ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے اور جبر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ علی وزیر کی جدوجہد اور قربانی نہ صرف یہ کہ رائیگاں نہیں جائیگی بلکہ محنت کش طبقے کی نجات کی تحریک میں ایک فیصلہ کن کردار کی حامل ہو گی۔