حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں حق حکمرانی اور حق ملکیت کا مطالبہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس خطے میں نافذ العمل عبوری آئین’ایکٹ1974ء‘ کی منسوخی کا مطالبہ بھی کہیں نہ کہیں کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ حق حکمرانی اور حق ملکیت کی اصطلاحات کن معنوں میں استعمال کی جاتی ہیں، یہ دونوں حق کس طرح مل سکتے ہیں اور ایکٹ74ء میں ایسا کیا ہے،جس کی وجہ سے منسوخی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
آئینی تاریخ
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نظام حکومت چلانے کے لیے گزشتہ76سالوں میں متعدد تجربات کیے گئے ہیں۔ ’آزاد حکومت‘ کے ’اعلان آزادی‘ کی روح کے مطابق آئین سازی اسمبلی کے لیے انتخابات کے انعقاد کی بجائے ’اعلان آزادی‘ کو پس پشت ڈال کر معاہدہ کراچی کے ذریعے اختیارات حکومت پاکستان کی ایک وزارت کو منتقل کر لیے گئے تھے۔ یوں اس خطے کا انتظام و انصرام بالکل اسی طرح چلایا جانا شروع ہوا،جیسے برطانوی ہند میں نوآبادیاتی نظام کی ترویج ہوئی۔ 28اپریل 1949کو ہونے والے معاہدہ کراچی کے بعد 1950میں ایک آرڈینس کے ذریعے ’رولز آف بزنس‘ بنائے گئے۔پھر دو سال بعدقواعدو ضوابط کی ازسرنو تشکیل ہوئی۔ تاہم تمام تر اختیارات پاکستان کی وزارت امور کشمیر کے جوائنٹ سیکرٹری کے پاس رہے۔ 1958میں جوائنٹ سیکرٹری کو ’چیف ایڈوائزر‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔
1960میں ’بنیادی جمہوریت‘ ایکٹ نافذ کیاگیا۔ اس ایکٹ میں پھر1964، 1967اور 1968میں ترامیم کی گئیں۔ اس کے بعد 1970 میں ایکٹ1970کا نفاذ عمل میں لایا گیا، جس کے ذریعے صدارتی نظام حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ 24اگست 1974ء کو اس ایکٹ کی تنسیخ اور بعض ترامیم کے بعد دوبارہ نفاذ کے نام پر ایکٹ1974ء نافذ کیا گیا۔ ایکٹ1974میں وقت کی ضرورتوں اور سامراجی مفادات اور تقاضوں کے مطابق 15سے زائد ترامیم کی جا چکی ہیں۔ انہی ضرورتوں کے تحت مختلف قوانین آرڈیننس اور ایکٹ منظور کر کے بھی نافذ کیے جاتے رہے ہیں۔ ’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘کے نام سے جاری ہونے والا حالیہ آرڈیننس بھی اسی کی ایک مثال تھا۔
ان تمام تر آئینی اصلاحات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے نفاذ میں جموں کشمیر کے شہریوں اور یہاں تک کہ مقامی حکمران اشرافیہ کی رائے کو بھی نظر انداز کیاگیا۔ پاکستان میں ہی تیار ہونے والی ان آئینی دستاویزات کو یا تو یکطرفہ طو رپر یہاں نافذ کیا جاتارہا، یا پھر منتخب نمائندوں کے دستخطوں سے نافذ کیا جاتا رہا ہے۔
برطانوی ہند کی تاریخ کو بھی دیکھا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد 1858 کے ایکٹ کے تحت براہ راست تاج برطانیہ کے نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد1870، 1909، 1919اور1935میں ایکٹ برطانیہ سے منظور ہو کر ہندوستان پر نافذ ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ1915، رولٹ ایکٹ1919سمیت دیگر قوانین بھی نافذ کیے جاتے رہے ہیں، جن کے ذریعے نوآبادیاتی قبضے کو مزید تقویت پہنچائی جانی مقصود تھی، یا نئے چیلنجز سے نمٹا جاتا رہا ہے۔ یوں اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو جموں کشمیر میں آئینی اصلاحات اور قانون سازی تاج برطانیہ کے ہندوستان یا دوسری نوآبادیوں کے لیے کیے جانے والے اسی نوع کے اقدامات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔
ایکٹ1974ء کے چیدہ چیدہ نکات
ایکٹ 1974کو اب 13ویں ترمیم میں عبوری آئین قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ دستاویز تضادات سے بھرپور ہے اور انتہائی دلچسپ بھی ہے۔ تاہم اس دستاویز میں جو کوئی حقوق شہریوں کو دینے کی ضمانت دی گئی ہے، ان پر کبھی کوئی بات کسی نے نہیں کی۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کی ترجمانی کرنے والے امور پر سختی سے عملدرآمد البتہ یقینی بنایا جاتا رہاہے۔
ایکٹ کی تمہیدمیں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان(یو این سی آئی پی) کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے مقاصد کو آگے بڑھانے اور بہتر حکمرانی، سماجی و اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح بہبود کو اہم مقاصد قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے جمہوری طریقہ کار کے ذریعے یو این سی آئی پی کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کا حصول مقاصد کے طور پر لکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حق خودارادیت حق علیحدگی سمیت ہے، جبکہ یو این سی آئی پی کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کو دو ملکوں کے درمیان استصواب رائے تک محدود کیا گیا ہے۔ تاہم اس عبوری آئین میں دونوں متضاد اہداف کا حصول مقاصد کے طورپر بیان کیا گیا ہے۔
اعلان آزادی کے مغائر ریاست کی سیکولر حیثیت کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، ریاست کا مذہب اسلام قرار دیا گیا ہے۔
ریاست کی ذمہ داریاں
عبوری آئین میں تعصبات کا خاتمہ، خواتین کی زندگی کے تمام شعبوں میں بھرپور شمولیت، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، 16سال تک مفت تعلیم، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم عام مہیا کرنا، سستا اور تیز ترین انصاف، کام کے حالات کو انسانی بنانا، چائلڈ لیبر کا خاتمہ، جسم فروشی کا خاتمہ، ڈرگز کا خاتمہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔
اسی طرح دولت،ذرائع پیداوار و ترسیل کے ارتکاز کو روکنا، بلاتخصیص مذہب، ذات، رنگ، نسل معیار زندگی کو بلند کرنا، تمام شہریوں کو روزگار کی فراہمی بصورت دیگر سوشل سکیورٹی کی فراہمی، آمدن اور کمائی میں تفاوت کم کرنا اور سود کا خاتمہ کرنا بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔
بنیادی حقوق
عبوری آئین میں بنیادی حقوق تو درج کیے گئے ہیں، تاہم عملی اقدامات ان بنیادی حقوق کے مغائر کیے جاتے ہیں اور بنیادی حقوق کو ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین رکھنے سے مشروط کیا گیا ہے۔
گرفتاری کے متعلق معلومات کی فراہمی، وکیل کے ساتھ مشاورت کا حق دیے بغیر گرفتاری کی ممانعت اورگرفتار شخص کو 24گھنٹے کے ندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ تاہم آزاد جموں و کشمیر (پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر)یا پاکستان کی سالمیت، سکیورٹی اور دفاع کے خلاف سرگرمی کرنے والوں کو یہ حقوق حاصل نہیں ہونگے۔ ایسے لوگوں کو تین ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔ ریویو بورڈ اس مدت میں توسیع بھی کر سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ24ماہ تک زیر حراست رکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ جبر ی مشقت اور غلامی کا خاتمہ، سفر، اجتماع، تنظیم سازی، یونین سازی اور سیاسی جماعت بنانے کا حق دیا گیا ہے۔ تاہم یہ حق ریاست کی خودمختاری، سالمیت اور ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے کے مخالفین کو حاصل نہیں ہے۔ آزادی اظہار رائے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے سے اختلاف رکھنے والوں کو حاصل نہیں ہے۔ تمام شہریوں کو برابر قرار دیا گیا ہے، تاہم صدر ریاست مسلمان ہوگا۔
سیاسی ڈھانچہ
سیاسی ڈھانچہ ’جموں کشمیر کونسل‘اور ’قانون ساز اسمبلی‘کے دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ کونسل 14اراکین پر مشتمل ہے، جس کا چیئرمین وزیراعظم پاکستان ہوگا اور 5ممبران وزیراعظم پاکستان کے نامزد کردہ پاکستان کے وزراء اور ممبران پارلیمنٹ پر مشتمل ہونگے۔ 6اراکین کا انتخاب قانون ساز اسمبلی کرے گی۔ صدر بطور وائس چیئرمین اور وزیراعظم بالحاظ عہدہ رکن کونسل ہونگے۔
قانون ساز اسمبلی 53اراکین پر مشتمل ہوگی۔ 45کا انتخاب براہ راست ہوگا، جن میں سے 33پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے اندر موجود انتخابی حلقوں سے منتخب ہونگے۔ 12اراکین مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے حلقوں سے ہونگے، جن میں سے 6جموں کے اضلاع اور 6وادی کشمیر کے اضلاع کی نمائندگی کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ 12نشستیں کئی دہائیوں تک بغیر کسی آئینی تحفظ کے موجود رہیں۔ سپریم کورٹ میں ان نشستوں کے خلاف رٹ پٹیشن کے بعد 13ویں آئینی ترمیم میں ان نشستوں کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ ان نشستوں پر انتخابات کا انعقاد حکومت پاکستان کی نگرانی میں ہوتا ہے اور یہ نشستیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں پھیلے چند لاکھ رائے دہندگان پر مشتمل ہیں، جن کا تعین کرنے میں شفافیت قائم رکھنے کی صلاحیت، اہلیت اور اختیار بھی جموں کشمیر کی اس حکومت کے پاس نہیں ہے۔
اسمبلی میں 8مخصوص نشستیں ہیں، جن کا انتخاب ممبران اسمبلی کرتے ہیں۔ ان میں 5خواتین، 1علماء مشائخ، 1ٹیکنوکریٹس اور 1اوورسیز کشمیریوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔
آئین سازی و قانون سازی کے اختیارات
عبوری آئین کے مطابق جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے پاس قانون سازی کے انتہائی محدود اختیارات ہیں۔ ان اختیارات کو بھی حکومت پاکستان کی رضامندی سے مشروط کیا گیا ہے۔
آرٹیکل19کے مطابق تھرڈ شیڈول کے پارٹ بی میں شامل امور کے تحت حکومت کو ایگزیکٹو اتھارٹی میسر ہوگی۔ تاہم حکومت پاکستان کی ذمہ داریوں کی مخالفت یا ان میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکے گی۔
آرٹیکل31کے ذیلی آرٹیکل3میں حکومت پاکستان کے ساتھ رشتے کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق تھرڈ شیڈول کے پارٹ اے میں شامل 32امور سے متعلق قانون سازی کا اختیار صرف اور صرف حکومت پاکستان کے پاس ہے، جبکہ تھرڈ شیڈول کے پارٹ بی میں شامل 22امور میں قانون سازی کا اختیار قانون ساز اسمبلی کو حاصل ہے، لیکن یہ حق حکومت پاکستان کی رضامندی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ11مئی 1971کو پاکستان کی کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے لکھے گئے مکتوب میں بھی پاکستان کے ساتھ رشتے کی وضاحت و تفصیل موجود ہے۔
آرٹیکل33، 31اور56میں حکومت پاکستان کی منظوری کے بغیر ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ چیف الیکشن کمشنر اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرری بھی وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے مشروط ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی ہدایات پر 4ماہ کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ کر کے بنیادی حقوق کو معطل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا داخلی انتشار، بیرونی حملے یا جنگی صورتحال میں کیا جا سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے کوئی پابند نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس وجہ سے ہونے والے کسی بھی نقصان کا کوئی مداوا طلب کیا جا سکے گا۔
قانون سازی کے لیے مجموعی طور پر 54امور اس عبوری آئین میں شامل کیے گئے ہیں، جنہیں تھرڈ شیڈول کے پارٹ اے اور بی میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پارٹ اے میں شامل 32امور پر قانون سازی کے اختیارات صرف حکومت پاکستان کے پاس ہیں، جن میں درج ذیل امور شامل ہیں:
یو این سی آئی پی قراردادوں کے مطابق حکومت پاکستان کی ذمہ داریاں، دفاع، کرنسی، خارجہ امور، مواصلات و کمیونیکیشن، نیوکلیئرانرجی، فضائیہ کے امور، کاپی رائٹس، ایجادات، ڈیزائن، ٹریڈ مارک اور مرچنڈائز مارک وغیرہ، افیون کی فروخت اور برآمد، سٹیٹ بینک، بینکنگ بزنس، انشورنس سے متعلق قوانین، سٹاک ایکسچینج، کارپوریشن ریگولیشن، پلاننگ برائے اکنامک کوآرڈی نیشن بشمول پلاننگ اینڈ کوآرڈی نیشن آف سائنٹیفک اینڈ ٹیکنالوجیکل ریسرچ، آزاد جموں وکشمیر کی حدود کے باہر کی ہائی ویز اور حکومت پاکستان کی طرف سے تذویراتی طور پر اہم قرار دی گئی سڑکیں، دوسرے ملکوں سے معاہدے بشمول تعلیمی و ثقافتی معاہدے، فارن ایکسچینج، پارٹ اے سے متعلق امور پر انتظامی عدالتیں اور ٹربیونلز، لائبریریز، میوزیم اور اسی نوعیت کے دیگر ایسے ادارے جن کا کنٹرول حکومت پاکستان کے پاس ہو، حکومت پاکستان کی ایجنسیز اور ادارے، طلبہ کی بیرون ملک تعلیم، امپورٹ ایکسپورٹ، بین الاقوامی معاہدے، کنونشن اور ثالثی، جیالوجیکل اور میٹرولوجیکل سروے، اوزان و پیمائش کے معیار، کسٹم اور ایکسپورٹ ڈیوڈیز، کاپوریٹ ٹیکسز، پارٹ اے سے متعلق جرائم، انکوائریز اور اعداد و شمار اوردیگر واقعاتی یا ذیلی معاملات سے متعلق قانون سازی۔
پارٹ بی میں شامل 22امور سے متعلق قانون سازی قانون ساز اسمبلی کر سکتی ہے،تاہم اسے ایسا کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی رضامندی درکار ہوگی۔ ان میں درج ذیل امور شامل ہیں:
ریلوے، منرلز، تیل و گیس، سرکاری قرض کی مینجمنٹ اور سپرویژن، بوائلرز، مردم شماری، سٹیٹ پراپرٹی، حکومت پاکستان کے پلان کیے گئے اور بنائے گئے منصوبوں کے علاوہ بجلی کی پیداوار، اشیاء اور مسافروں پر ٹرمنل ٹیکسز، پولیس فورس، قیدیوں کی پاکستان یا آزاد جموں و کشمیر منتقلی، کیریکولم، نصاب، پالیسی اور تعلیمی معیار، میڈیکل اور دیگر شعبہ جات، اعلیٰ تعلیم، تحقیق، سائنسی اور تکنیکی تعلیم سے متعلق معیار، آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے صوبوں سے متعلق امور کی کوآرڈینیشن، تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات، عدالتوں کی حدود اور اختیارات، پارٹ بی سے متعلق امور کے حوالے سے جرائم کے متعلق قوانین، انکوائریز اور اعداد و شمار اور دیگر واقعاتی یا ذیلی معاملات سے متعلق قانون سازی۔
حلف نامے و مراعات
فرسٹ شیڈول میں حلف ناموں کے پروفارمے شامل کیے گئے ہیں۔ صدر، وزیراعظم، وزراء، سپیکر، ممبران اسمبلی، چیف جسٹس، ججوں، آڈیٹر جنرل اور چیف الیکشن کمشنرکو یہ حلف بھی دینا ہوگا کہ وہ الحاق پاکستان کے مقاصد کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ محکمانہ قواعد و ضوابط میں اب یہ حلف نامہ گریڈ1سے 16تک بھرتی ہونے والے ملازمین کے لیے بھی دیا جانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ نجی سکول رجسٹر کروانے سمیت کاروباری ادارے رجسٹر کروانے کے لیے بھی یہ حلف نامہ جمع کروانا لازمی ہو چکا ہے۔
فورتھ شیڈول میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تنخواہوں،مراعات اور پنشن کو پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تنخواہوں، مراعات اور پنشن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
حق حکمرانی و حق ملکیت
حق حکمرانی کی اصطلاح کے معنی کسی مخصوص علاقے میں رہنے والے افراد کو حکومت سازی اور آئین سازی کے مکمل اختیارات میسر آنا ہیں۔ اسی طرح حق ملکیت کی اصطلاح کے معنی کسی مخصوص علاقے کی زمین، پانی اور فضا میں موجود وسائل کے استعمال اور ان سے متعلق فیصلہ سازی کرنے کے اختیار کے ہیں۔ عبوری آئین البتہ یہ دونوں حق فراہم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔
عبوری آئین کی موجودگی میں حق حکمرانی حکومت پاکستان کے پاس گروی ہے۔ اس عبوری آئین کے تحت حق حکمرانی حاصل کرنے کے لیے ضروری ترامیم کا اختیار بھی مقامی اسمبلی کو نہیں دیا گیا ہے۔ حق حکمرانی کے بغیر وسائل کا حق ملکیت حاصل کرناممکن نہیں ہے، کیونکہ اس متعلق قانون سازی اور آئینی اصلاحات کا اختیار ہی موجود نہیں ہے۔ یوں اس عبوری آئین کے اندر رہتے ہوئے حق حکمرانی اور حق ملکیت کی مانگ ادھورے اور مبہم مطالبے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
حل کیا ہے؟
جموں کشمیر پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان کے جغرافیے کا حصہ نہیں ہے۔نہ ہی پاکستانی آئین کا اطلاق اس سرزمین پر ہوتا ہے۔ منقسم اور تنازع میں شامل اس خطے کے پاکستانی زیر انتظام حصوں میں جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے اضلاع شامل ہیں۔ ان دونوں خطوں کا انتظام الگ الگ انتظامی ڈھانچوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ تاہم یہ انتظامی ڈھانچے نوآبادیاتی طرز کے ہیں۔ جموں کشمیر میں ایکٹ1974ء کے نام پر ایک نوآبادیاتی آئین نافذ ہے، جبکہ گلگت بلتستان میں گلگت بلتستان آرڈیننس کے نام پر ایک سامراجی حکم نامہ آئین کے طور نافذ ہے۔
تاوقتیکہ جموں کشمیر تنازع کا کوئی حل نکلتا، ابتدائی مرحلے میں ان دونوں خطوں کا سیاسی اور مالیاتی انتظام چلانا ان خطوں کے لوگوں کا بنیادی جمہوری حق ہے۔ اس لیے تنازع جموں کشمیر کے حل تک دفاع، کرنسی اور مواصلات کے علاوہ آئین سازی اور قانون سازی کے اختیارات سمیت وسائل پر مکمل کنٹرول ان خطوں کے عوام کو فراہم کیا جانا چاہیے، تاکہ نہ صرف نوآبادیاتی جبر کاجزوی خاتمہ ہو بلکہ اس خطے کے لوگ جمہوری آزادیوں سے سرفراز ہو سکیں۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاسی، آئینی اور مالیاتی اختیارات فراہم کیے جانے کی صورت وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ان خطوں میں منتخب ہونے والی عوامی حکومتیں تعلیم، صحت، روزگار کی مفت فراہمی سمیت جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر جیسے فرائض کی تکمیل کر سکتی ہیں۔