خبریں/تبصرے

تمام مقدمات میں ضمانت کے 20 روز بعد بھی علی وزیر جیل میں

لاہور (جدوجہد رپورٹ) جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیرکی رہائی کیلئے ضمانتی مچلکے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کئے 21 روز گزر چکے ہیں، تاہم علی وزیر کو تاحال رہا نہیں کیا گیا ہے۔ پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین اور ان کے دیگر ساتھی علی وزیر کو جیل میں رکھے جانے کے عمل کو حبس بے جا قرار دے رہے ہیں۔

تاہم سینئر سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل کراچی نے آئی جی سندھ کے نام ایک مکتوب میں علی زیر کے خلاف 5 ویں مقدمہ کے زیر کار ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی وزیر کی رہائی میران شاہ میں ان کے خلاف درج مقدمہ میں ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔

مذکورہ مقدمہ میں ان کی ضمانت کی اپیل ماتحت عدالتوں میں مسترد ہونے کے بعد ہائی کورٹ سرکٹ بنچ بنوں میں زیر سماعت ہے۔ یہ مقدمہ 2020ء میں علی وزیر کے خلاف میران شاہ تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ مذکورہ مقدمہ میں غداری، بغاوت سمیت لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی اور دیگر دفاعت کے تحت درج کیا گیا ہے۔

کراچی میں چوتھے مقدمہ میں علی وزیر کی ضمانت منظور ہونے کے بعد خیبر پختونخوا پولیس علی وزیر کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے کراچی گئی تھی۔ تاہم اس وقت علی وزیر ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں سے دوبارہ انہیں کراچی سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے علی وزیر نے اجازت مانگی تھی، جس پر 3 اکتوبر کو سینئر سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل کراچی نے آئی جی پی سندھ پولیس کو مکتوب لکھتے ہوئے علی وزیر کے خلاف میران شاہ میں درج پانچویں مقدمہ کے زیر کار ہونے کی اطلاع بھی تھی۔

علی وزیر کو دو سال قبل 16 دسمبر 2020ء کو پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ اس وقت سے وہ کراچی جیل میں زیر حراست ہیں اور ان کی رہائی کے راستے میں قانونی موشگافیوں کے ذریعے سے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں۔

سہراب گوٹھ تھانہ کراچی میں 2020ء کو درج مقدمہ میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ مذکورہ کیس میں تاخیری حربوں کے بعد سپریم کورٹ سے ضمانت منظور ہونے کے بعد ان کے خلاف شاہ لطیف ٹاؤن تھانہ میں 2018ء کودرج ہونے والا ایک درج مقدمہ کو اوپن کر کے ان کی گرفتاری اس مقدمہ میں ظاہر کر دی گئی تھی۔ مذکورہ مقدمہ میں متعدد تاخیری حربوں کے بعد سندھ ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت منظور ہوئی، تو ایک تیسرا مقدمہ اوپن کر کے اس میں گرفتاری ظاہر کر دی گئی تھی۔

تیسرا مقدمہ سہراب گوٹھ تھانہ میں ہی 2019ء میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمہ سے ضمانت کے بعد ان کے خلاف 2018ء میں ہی درج کئے گئے بوٹ بیسن تھانہ کے ایک مقدمہ کو اوپن کر کے اس میں گرفتاری ظاہر کر دی گئی تھی۔ یوں علی وزیر کو چوتھے مقدمہ سے گزشتہ ماہ ستمبر میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔ جس کے بعد مجموعی طور پر 4 مقدمات میں ضمانت کے 19 لاکھ کے مچلکے جمع کروائے گئے اور دیگر قانونی ضابطے پورے کئے ہوئے 20 روز گزر چکے ہیں۔ اس دوران نہ تو علی وزیر کو رہا کیا گیا اور نہ ہی کے پی پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔

سینئر صحافی مبشر زیدی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’سندھ پولیس نے ایم این اے (علی وزیر) کے خلاف میران شاہ میں لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ایک نیا کیس سامنے لایا ہے، جس کی سماعت شمالی وزیرستان میں ہوگی۔ پی ڈی ایم نے علی وزیر سے عدم اعتماد کے وقت ووٹ لیا، لیکن اب وہ انہیں بھول گئے ہیں۔‘

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’علی وزیر پر سندھ میں جتنے بھی مقدمات تھے، سب میں ضمانت ہو گئی، ضمانتی مچلکے جمع کئے اور رہائی کیلئے تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد 20 دن ہو گئے، مگر علی وزیر کو رہا نہیں کیا گیا۔ عدالتی ضمانتوں کے باوجود علی وزیر اس وقت سندھ حکومت کے ماتحت کراچی جیل میں مکمل حبس بے جا میں بند ہیں۔‘

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ علی وزیر میرانشاہ پولیس کو ایک ایف آئی آر میں مطلوب ہیں، لیکن سیشن جج شمالی وزیرستان نے اپنے فیصلے میں کہا کہ علی وزیر میران شاہ ایف آئی آر میں گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔ ظلم کی انتہا ہے کہ علی وزیر کو نہ تو میران شاہ پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کراچی جیل سے رہا کرتے ہیں۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts