لاہور (جدوجہد رپورٹ) جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی 5 ویں مقدمہ میں پشاور ہائی کورٹ بنوں بنچ نے درخواست ضمانت منظور کر دی ہے۔ تاہم ان کی رہائی کا راستہ روکنے کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان تھانہ میں 2020ء میں درج اسی نوعیت کی ایک اور ایف آئی آر میں انکی گرفتاری ظاہر کر دی گئی ہے۔
علی وزیر کے وکیل بخت نیاز ایڈووکیٹ کے مطابق پشاور ہائی کورٹ بنوں بنچ نے پیر کے روز 10 لاکھ کے زر ضمانت کے عوض ان کی درخواست ضمانت منظور کی۔ منگل روز ان کے ضمانتی مچلکے عدالت میں جمع کروائے جانے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ علی وزیر کے خلاف مزید کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ اب ان کی رہائی ممکن ہو پائے گی۔
تاہم پیر کے روز ہی آئی جی پولیس سندھ کی جانب سے ایس ایس پی سنٹرل جیل کراچی کو لکھا گیا ایک مکتوب منظرپر آیا، جس کے مطابق 26 اکتوبر کو محکمہ داخلہ سندھ نے علی وزیر کو ڈی آئی خان تھانہ میں 2020ء میں ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے، بغاوت اور غداری کی دفعات کے تحت درج کی گئی ایک ایف آئی آر میں ٹرانسفر کرنے کی ہدایات کر رکھی ہیں۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر علی وزیر کی رہائی کا معاملہ روک دیا گیا ہے۔
علی وزیر کو دسمبر 2020ء کو پشاور سے گرفتار کر کے کراچی جیل منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں انسداد دہشت گردی عدالت نے ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے اور بغاوت کے مقدمہ سے بری کر دیا ہے۔ 4 دیگر مقدمات میں درخواست ضمانت اعلیٰ عدالتوں سے منظور ہونے کے باوجود وہ انکی رہائی ممکن نہیں ہو پائی ہے۔
علی وزیر کو اب بھی کراچی میں درج دیگر تین ایسے ہی مقدمات میں ٹرائل کا سامنا ہے، جن میں انہیں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔ خیبرپختونخوا کے شہر میران شاہ میں بغاوت کے چوتھے مقدمہ میں بھی ان کی درخواست ضمانت پشاور ہائی کورٹ بنوں بنچ نے منظور کر دی ہے۔ 19 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے کراچی میں جمع کروائے جا چکے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ بنوں بنچ کے پاس بھی 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروائے جا چکے ہیں۔ تاہم ایک نئے مقدمہ میں گرفتاری ظاہر کر کے علی وزیر کی رہائی روک دی گئی ہے۔
قبل ازیں سہراب گوٹھ تھانے میں درج مقدمہ میں علی وزیر کی درخواست ضمانت نومبر 2021ء میں سپریم کورٹ نے منظور کی تھی۔ تاہم ان کی ایک اور مقدمہ میں گرفتاری ظاہر کر کے رہا کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے مئی میں سہراب گوٹھ تھانے میں ہی درج اس دوسرے مقدمہ میں بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم کراچی پولیس نے شاہ لطیف پولیس اسٹیشن میں درج ایک تیسرے مقدمہ میں ان کی گرفتاری ظاہر کر کے رہائی سے انکار کر دیا تھا۔
رواں سال جولائی میں تیسرے مقدمہ میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد مئی 2018ء میں بوٹ بیسن تھانے میں درج چوتھے مقدمہ میں ان کے خلاف چالان پیش کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے رہائی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ گزشتہ ماہ کراچی میں درج اس چوتھے مقدمہ میں بھی ضمانت منظور ہونے کے بعد مچلکے جمع کروانے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے باوجود علی وزیر کی رہائی ممکن نہیں ہو پائی تھی۔
انہیں میران شاہ میں درج پانچویں مقدمہ میں گرفتار رکھا گیا تھا۔ پیر کے روز اس پانچویں مقدمہ میں ضمانت منظور ہونے کے بعد ان کی گرفتاری اب ڈی آئی خان میں درج مقدمہ میں ظاہر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی کو رہائی کیلئے قانونی جنگ لڑتے ہوئے 2 سال مکمل ہونے کو ہیں، تاہم قانونی موشگافیوں کو استعمال کرتے ہوئے اور ایک منظم ریاستی منصوبہ بندی کے تحت انہیں قید رکھا جا رہا ہے۔ علی وزیر کا کیس پاکستان کے عدالتی نظام کی بوسیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔