پاکستان

’جہادی کلچر‘ پروان چڑھانے کے سرکاری نعرے اور پونچھ فتح کرنے کی منصوبہ بندی

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہر سال کی طرح امسال بھی 5فروری کو ’یومِ یکجہتی کشمیر‘ کے عنوان سے سرکاری تقاریب کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم ضلع پونچھ کے شہر راولاکوٹ میں رواں سال ماضی کی نسبت یہ تیاریاں زیادہ جارحانہ بنیادوں پر کی جا رہی ہیں۔

صابر شہید اسٹیڈیم میں ’یکجہتی کشمیر اور طوفان اقصیٰ کانفرنس‘ کے عنوان سے ایک جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے، جس کے لیے تمام اضلاع، مدارس اور سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے سیاسی رہنماؤں سمیت تمام مکاتب فکر کو خصوصی طورپر مدعو کیا جا رہا ہے۔ اس جلسے کے انعقاد کے لیے ظاہر ہے سب سے زیادہ سرگرم وہی تنظیمیں ہیں، جنہیں ریاست نے خود ہی مذہبی دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔

تاہم خود ہی کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے نام بطور منتظمین اشتہاروں میں شائع کرنے کی بجائے اس خطے میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ٹائٹل ’تحریک آزادی کشمیر‘ کو ہی منتظم قرار دے دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی کچھ اشتہاروں میں انتظامات کی ذمے داری کسی نامعلوم’راولاکوٹ سول سوسائٹی‘ کو بھی سونپی گئی ہے۔ رابطہ مہم البتہ کالعدم قرار دی گئی’جیش محمد‘، ’لشکر طیبہ(جماعۃ الدعوۃ)‘، ’سپاہ صحابہ‘ اور ریاست کی آلہ کاری میں صف اول میں رہنے کا اعزاز پانے والی جماعت اسلامی کے ذمے داران ہی چلا رہے ہیں۔

فلسطین اور حماس کو پروگرام کی ظاہری تشہیری مہم میں اولین حیثیت حاصل ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فلسطین اور حماس کے پاکستان میں موجود نمائندے اس جلسے میں خصوصی شرکت کریں گے۔ ان رہنماؤں کے نام بھی اشتہاروں پر درج کیے گئے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی حماس کے نمائندوں کے استقبال کے لیے شہریوں کو مدعو کیا جا رہا ہے۔

تاہم مدارس، ’دیوبند اور’اہلحدیث‘ فرقوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی حلقوں میں عوامی رابطہ مہم کے دوران کالعدم قرار دی گئی جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بھائی طلحہ السیف، جیش محمد کے لانچنگ کمانڈر اصغر خان کشمیری، جیش کے ہی کمانڈر کہلانے والے مسعود الیاس، کالعدم قرار دی گئی لشکر طیبہ(جماعۃ الدعوۃ) کے اہم رہنما رضوان حنیف اور کالعدم قرار دی گئی سپاہ صحابہ کے مولانا آفتاب کاشرکے خصوصی خطاب پر توجہ دی جا رہی ہے۔

تقریباً10سال قبل دہشت گردی کے خلاف نام نہاد ریاستی جنگ کے لیے ’نیشنل ایکشن پلان‘ کے عنوان سے نئے قوانین نافذ کیے گئے تھے۔ ریاست کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب اسلحہ صرف ریاست ہی رکھ سکے گی۔ کسی غیر ریاستی کردار کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی مسلح جتھہ بندی کو دہشت گردی قرار دیا گیا تھا۔ حال ہی میں عسکری قیادت نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم مذہبی عسکری گروہوں کو ’الخوارج‘ کا نام دے کر دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیے گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر آپریشن کے دوران ان ’دہشت گردوں‘کی ایک مخصوص تعداد کے مارے جانے کی خبریں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے ذریعے میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔

تاہم پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں یہ سلسلہ الٹا چل رہا ہے۔ یہ مذہبی عسکری تنظیمیں تواتر سے یہاں تقاریب کا انعقاد کرتی ہیں اور بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہونے والی عسکری کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پسند اور قوم پرست سیاست کے خلاف سرعام ’جہاد‘ کا اعلان بھی کرتی ہیں۔

حال ہی میں جموں کشمیر کے اس حصے میں ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ تک چلنے والی عوامی حقوق تحریک کو پروان چڑھانے میں ضلع پونچھ کے عوام کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ سیاسی طور پر متحرک معاشرہ ہونے کے ناطے نوآبادیاتی جبر اور نیولبرل سامراجی پالیسیوں کے خلاف سب سے زوردار ردعمل اسی خطے سے ہی سامنے آیا ہے اور تاریخی طور پر بھی پونچھ نے اس خطے کے لوگوں کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پونچھ کو فتح کرنے کے لیے سامراجی حکمرانوں اور عسکری قیادت کو بھی مختلف طریقے اور حربے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔

طاقتوروں کا خیال ہے کہ پونچھ میں پورا معاشرہ ترقی پسند یا قوم پرست ہو چکا ہے اور نوجوانوں کا پاکستان اور افواج پاکستان سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اس لیے اس تبدیلی کا موجب بننے والے عناصر کا قلع قمع کیا جانا اشد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے پہل انہی انتہاء پسند تنظیموں کو استعمال کر کے کفر کے فتوے لگانے، مقدمات قائم کروانے اور سرعام قتل کی دھمکیاں دے کر ہجوم بنا کر ترقی پسند اور قوم پرست قیادتوں کے خلاف بلوے کروانے کی کوشش کی گئی، جو مکمل طور پر ناکام رہی۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر خصوصی سرمایہ کاری کرتے ہوئے پانچویں پشت کی جنگ لڑنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، 50،50ہزار روپے تنخواہوں پر بھرتیاں کر کے خصوصی ویڈیوز تیار کرواکر اورخصوصی ریڈیو پروگراموں کے ذریعے ذہن سازی کا راستہ اپنایا گیا، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آئی ٹی سنٹرز کے نام پر عسکری حکام کے داخلے کی راہ ہموار کی گئی، سکیورٹی ورکشاپوں کے نام پر صحافیوں، اساتذہ، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تربیت کا عمل شروع کیا گیا۔

اس سے بھی بڑھ کر پاکستان نواز سمجھی جانے والی نوآبادیاتی نظام کی پروردہ قوتوں اور حکمران اشرافیہ کی نمائندہ قیادتوں کے ذریعے پاکستان اور افواج پاکستان کے حق میں پروگرامات، ریلیوں اور جلسوں کے انعقادکروایا گیا اور بالخصوص مہاجرین جموں کشمیر کو ان کی خواہشات کے برعکس ان مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔اب اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے وہ راستہ اپنایا جا رہا ہے، جس سے متعلق خود ریاست اور حکمران طبقات کو قسمیں کھاتے عرصہ ہو گیا ہے کہ یہ کام تو ہم کب کے چھوڑ چکے ہیں۔ بارہا یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جموں کشمیر میں عسکری سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اگست2019ء کے بعد ایک بھارتی سفارتکار کے دعوے کے مطابق بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکری حملوں سے متعلق انٹیلی جنس ٹپس بھی پاکستانی حکام کی جانب سے دی گئی ہیں، تاکہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ تصور کیا جائے۔

تاہم ایک بار پھر وزیراعظم انوارالحق نے جب 5جنوری2025کو مظفرآباد میں ایک جلسے کے دوران ’جہادی کلچر‘ کو پروان چڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے سٹیج سے ’الجہاد، الجہاد‘ کے نعرے لگائے تو یہ بات کھل کر عیاں ہو گئی کہ عالمی دباؤ کے تحت مسعود اظہر کو نظر بند یا قید کرنے والی ریاست نے یہ ذمہ داریاں مسعود اظہر کے بھائیوں کو بدستورسونپ رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تنظیموں کے ناموں پر پابندیاں لگتی ہیں، انہیں کالعدم قرار دیا جاتا ہے، لیکن ان تنظیموں کی قیادتوں کے طور پر سرگرم افراد وہیں رہتے ہیں۔ اب تو خیر سے ماضی میں مسعود اظہر کے قریبی ساتھی رہ چکے پیر مظہر سعید شاہ عرف عبداللہ شاہ مظہر وزیر اطلاعات کی کرسی پر براجمان ہیں۔ یوں جہادی کلچر تو اب حکومت کا باضابطہ حصہ بن چکا ہے۔

ماضی میں البتہ یہ ’جہادی کلچر‘ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی افواج کو مصروف کرنے کے لیے پروان چڑھایا جا رہا تھا۔ اس بار لیکن اس کلچر کا نشانہ جموں کشمیر کا پاکستانی زیر انتظام حصہ زیادہ بنتا نظر آرہا ہے۔ ماضی میں عالمی سامراجی طاقتوں کی ضرورت بھی بھارتی افواج کو مصروف کرنا تھی، تاہم اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔

’تحریک آزادی‘ البتہ ایک ایسا کاروبار ضرور رہا ہے، جسے تاریخی طور پر جموں کشمیر کے پاکستانی زیرانتظام حصے میں مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ عوامی حقوق کے لیے سرگرم نوجوانوں اور محنت کشوں نے آزادی اور انقلاب کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیے ہیں۔ حق حکمرانی اور حق ملکیت کی فراہمی اس خطے کے نوجوانوں کے مقبول نعرے بن چکے ہیں۔ اس لیے نوآبادیاتی نظام کی پروردہ قوتوں (یعنی اس خطے کی حکمران اشرافیہ) اور اس خطے کے وسائل پر قابض حکمرانوں اور عسکری قیادت کے لیے ناگزیر ہے کہ ’تحریک آزادی‘ کے نام پر ایک بار پھر اس خطے کے نوجوانوں کے ہاتھ میں بندوق تھمائی جائے اور پھر ان کے خون سے ہاتھ رنگتے ہوئے ان نعروں کا انتقام لیا جائے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔