لاہور (جدوجہد رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے رکن اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں منگل کو تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
پی ٹی ایم رہنما علی وزیر کی نااہلی کی درخواست خارج کر دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ چار لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا بھی حکم دیا گیا۔
آج کی سماعت میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف لالا اور دیگر وکلا علی وزیر کی جانب سے پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ’کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’علی وزیر نے شکایت کی تھی ان کا گلہ دور کرنا چاہیے تھا۔ اپنوں کو سینے سے لگانے کے بجائے پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ’علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟‘
پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ علی وزیر پر اس طرح کے اور بھی مقدمات ہیں اور کس بھی اور مقدمے میں ان کی ضمانت نہیں ہوئی۔
اس پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ’کسی اور کیس میں ضمانت نہیں تو اسے سنبھال کر رکھیں۔ جسٹس سردار طارق نے یہ بھی کہا کہ علی وزیر پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا تو وہ دفع کیوں لگائی گئی؟
یاد رہے کہ علی وزیر کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں سندھ حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں مقدمہ درج کیا تھا، جس کے بعد 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول حملے کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے بعد پشاور سے علی وزیر کو گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
انسداد دہشتگردی عدالت سے درخواست ضمانت مسترد کئے جانے کے بعد عدالت العالیہ سندھ میں درخواست ضمانت دائر کی گئی تھی۔ عدالت العالیہ نے مقدمہ کی سماعت مکمل کرنے کے بعد 3 ماہ تک فیصلہ محفوظ رکھا اور اس کے بعد درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ رواں سال جون سے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔ تاہم گزشتہ تقریباً 6 ماہ کے دوران پہلی سماعت کیلئے دو رکنی بنچ قائم کیا گیا، جس نے یہ کہہ کر مقدمہ سننے سے انکار کر دیا کہ دو رکنی بنچ ضمانت کے مقدمات کی سماعت نہیں کر سکتا۔ نیا بنچ تشکیل دیا گیا تو پراسیکیوٹر کی عدم حاضری کی وجہ سے 2 دن کیلئے سماعت ملتوی کی گئی۔ تاہم اسی روز ہی نیا بنچ قائم کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر تیسری سماعت پیر کو ہونا تھی، لیکن ایک جج کی غیر حاضری کی وجہ سے بنچ ٹوٹ گیا ہے۔