عظمت آفریدی
میں چین میں بین الثقافت ابلاغ (Inter-Cultural Communication) کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ ہماری یونیورسٹی کی جانب سے ہمیں مختلف شہروں کے تعلیمی دورے (اسٹڈی ٹورز) کروائے جاتے ہیں۔ میرے اسٹڈی ٹورز میں ہم 10 مسلمانوں سمیت 20 ایسے ہم جماعت ہیں جو یا تو دوسرے مذاہب کے پیروکار ہیں یا وہ غیر مذہبی ہیں۔
انتظامیہ یہ بات یقینی بناتی ہے کہ ایسے دوروں میں تمام کھانے حلال ہوں حالانکہ چند جگہوں میں یہ بندوبست بہت مشکل ہوجاتاہے۔ ایسے شہر اور مقامات بھی ہیں جہاں چین کے لوگ حلال کے تصورسے ہی ناواقف ہوتے ہیں۔
ایک سینئر طالبعلم، جنہوں نے یہاں سے ایم اے کیاتھااور اب ڈاکٹریٹ کرنے آئے ہیں، کا کہنا ہے کہ”چند سال قبل مسلمان طلبہ نہیں تھے اور انہیں کھانے میں تمام چیزیں دی جاتی تھیں جو اب مسلمانوں کی وجہ سے ختم کر دی گئی ہیں“۔
جب میں نے اس سے پوچھاکہ آپ لوگ اعتراض کیوں نہیں کرتے تو انکا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ میں نے کہاکہ آپ کے بھی تو جذبات ہیں ان کے احترام کی توقع آپ مسلمانوں سے کیوں نہیں کرتے؟
میرے سینئر کا جواب تھا: ”اس حقیقت پسندی سے آپ ناراض ہوجاتے ہو“۔
انہوں نے ایک واقعہ سنایا: ”ایک دفعہ حلال کھانے کا بندوبست نہیں ہوسکا اور انتظامیہ نے بہت معذرت کے ساتھ ہمیں کہاکہ مسلم طلبہ سبزیوں اور مچھلی پرگزارہ کریں۔ ہمارے مسلمان ساتھیوں نے کھاناکھانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ سب کھانے ایک ہی باورچی نے ایک ساتھ پکا ئے ہونگے تو احتمال ہے کہ سبزیاں بھی سورکے گوشت سے ناپاک ہو گئی ہوں گی“۔
ایک چینی پروفیسر جس نے پاکستان کا سفر کیا ہوا تھا، نے ایک دفعہ میرے ایک پر جوش ہم جماعت پاکستانی سے پوچھا: ”آپ کے ملک کی کسی یونیورسٹی میں غیرملکی یا غیر مسلم طلبہ کے لئے ان کی پسند کے کھانے کا انتظام ہے یا غیرملکی اساتذہ کے وفد کو وہ چیزیں فراہم کی جاتی ہیں جوآپ کے مذہب کے مطابق حرام جبکہ ہمارے مطابق درست ہیں؟“
اسکا جواب ظاہر ہے اس مسلمان طا بعلم کے پاس نہیں تھا۔
میں اکثر اس صورتحال بارے سوچتا ہوں۔
میرے خیال سے یہ مسئلہ اس لئے شروع ہوتا ہے کہ جب ہمیں گھر، سکول اور میڈیاکے ذریعے بچپن سے ہی بس یہی سکھایااور پڑھایا جاتا ہے کہ ہم دنیاکے سب سے اعلیٰ لوگ ہیں اور باقی تمام مذاہب اور ثقافتیں کمترہیں یامنسوخ ہو چکی ہیں۔
اس اختصاصیت (Exclusivist) اور مختلف ثقافتوں کے لئے احترام سے عاری تربیت کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہم ایک غیر ضروری مذہبی اور ثقافتی گھمنڈکے بوجھ تلے اتنے اٹل اور غیر لچکدار ہوجاتے ہیں کہ نہ صرف تنوع کا مزہ اٹھانے سے خود کو محروم کر لیتے ہیں بلکہ مختلف النوع ثقافتوں سے سیکھنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور دوسروں کے لیے بھی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔
میرا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ایسے حالات میں دو صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اگر ہم زور آور ہیں یاپھر لوگ ہمارا احترام کریں تو ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہمارا مذہب اور ثقافت سب سے اعلیٰ ہیں لیکن اگر لوگ ہماری منطق کو چیلنج کریں تو ہم سماجی نرگسیت جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر ثقافتی تنہائی میں چلے جاتے ہیں۔