لاہور (علی اشرف نمائندہ حقوقِ خلق موومنٹ) مورخہ 23 مئی 2019ء بروز جمعرات ’حقوقِ خلق موومنٹ‘ کی طرف سے تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے لاہور دفتر کے سامنے علامتی احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا۔جس میں پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو، آر ایس ایف، ویمن کلیکٹو، ترقی پسند اساتذہ اتحاد، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، پشتون ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ، بلوچ کونسل، پنجاب کونسل و دیگر سماجی و سیاسی تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت کی۔
احتجاج کی بنیادی وجہ تعلیمی اخراجات میں کٹوتیا ں تھیں۔ جن میں آئی ایم ایف کی ایما پر ایچ ای سی کے بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی اور پسماندہ علاقہ جات کے طلبہ کے لئے مختص وزیرِاعظم خصوصی فنڈ کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مستحق طلبہ کے وظیفوں کا خاتمہ بھی کیا جا رہا ہے۔ فیسوں میں ہوشربا اضافے کیے جا رہے ہیں اور متعدد اداروں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام ہی ختم کر دیے گئے ہیں۔
اس موقع پر پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے رکن حیدر علی بٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت نوجوانوں کی طاقت کی بنیاد پر اقتدار میں آئی لیکن حکومت میں آتے ہی اپنے وعدوں کو رد کر دیا اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضروریات کو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں اور سکالرشپ کے خاتمے جیسے فیصلوں کو کالعدم کرتے ہوئے جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جائے۔
حقوقِ خلق موومنٹ کے رکن زاہد علی کا کہنا تھا کہ پہلے ہی نوجوانوں کی ایک محدود تعداد کوہائیر ایجوکیشن تک رسائی حاصل ہے اور ڈگری کے بعد بھی ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ اور حکومتِ وقت آئی ایم ایف کے ایما پرتعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں کرتے ہوئے تعلیم کا حصول مزید مشکل کر رہی ہے۔
ترقی پسند اساتذہ اتحاد سے پروفیسر عمار علی جان نے حالیہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کو نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف قرار دیا۔
آر ایس ایف کے مرکزی رہنما اویس قرنی نے کہا کہ آئی ایم ایف کے حکم پر کٹھ پتلی حکومت نے محنت کشوں پر معاشی حملوں کی نئی یلغار کا آغاز کر دیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے گھناؤنے وار صحت اور تعلیم کے شعبے پر کیے جا رہے ہیں۔ ہماری کسی ادارے کیساتھ ذاتی دشمنی نہیں ہے بلکہ ہماری لڑائی طبقاتی بنیادوں پر ہے اور نوجوانوں کو منظم کرتے ہوئے ہم اپنے حق کی خاطر ملک بھر میں جدوجہد کریں گے۔
پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سے سبطِ حسن نے کہا کہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی نہ صرف لاکھوں نوجوانوں بلکہ ان تمام لوگوں کے حق پر ڈاکہ ہے جن کی معاشی آسودگی تعلیم کی امید سے جڑی ہے۔
پشتون طلبہ کے رہنما مزمل کاکڑ نے بھی مستحق طلبہ کے سکالرشپ کے خاتمے اور پسماندہ علاقوں کے طلبہ کے کوٹے کے خاتمے کو زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا۔