خبریں/تبصرے

خیبر پختونخوا: دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ، 11 ماہ میں 165 حملہ ہوئے

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبائی انسداد دہشت گردی فورس کے حراستی مرکز میں زیر حراست عسکریت پسندوں کی جانب سے اہلکاران اور افسران کو یرغمال بنائے جانے کے واقعہ کی وجہ سے خوف و ہراس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

ترجمان پاک فوج میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق شدید گن فائٹ کے بعد 25 عسکریت پسند مارے گئے اور 7 نے ہتھیار ڈال دیئے، فائرنگ کے تبادلے کے دوران 2 فوجی ہلاک اور 2 افسران سمیت 10 دیگر زخمی ہوئے۔

یہ واقعہ اتوار کے روز بنوں شہر کے ایک کنٹونمنٹ میں ایک حراستی مرکز میں پیش آیا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق عسکریت پسندوں میں سے ایک نے سکیورٹی گارڈ پر قابو پالیا، اس کا ہتھیار چھین لیا اور باقی 34 عسکریت پسندوں کر رہا کر دیا۔ انہوں نے کمپاؤنڈ میں ذخیرہ شدہ ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور انسداد دہشت گردی فورس کے 2 اہلکاروں کو ہلاک کر دیا، جبکہ ایک سکیورٹی اہلکار کو یرغمال بنا لیا گیا۔

قبل ازیں یہ اطلاع ملی تھی کہ عسکریت پسندوں نے متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی، جس میں سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیاگیا تھا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی منگل کو کہا تھا کہ فوجی آپریشن کے بعد تمام مغویوں کو رہا کر دیاگیا ہے، تاہم انہوں نے یرغمالیوں کی تعداد نہیں بتائی تھی۔

پاکستانی طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے نام سے جانا جاتا ہے، نے حالیہ مہینوں میں حکومت کے ساتھ امن عمل ٹوٹنے کے بعد حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

طالبان کے صوبہ خیبرپختونخوا سے چلے جانے کے حوالے سے رائے منقسم ہے، تاہم اس با ت پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ افغانستان میں طالبان کے قبضہ کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت کے دوران حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات کے عرصہ میں عسکریت پسندوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق افغانستان کی سرحد سے متصل شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں پیر کو عسکریت پسندوں کے حملے میں مبینہ طو پر ایک فوجی اہلکار اور دو شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ پشاور میں پیر کے روز ایک حملے میں سویلین انٹیلی جنس ایجنسی کے افسر کو گولی مار کر ہلاک کر دیاگیا تھا، جس کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا میں الگ الگ حملوں میں کم از کم ایک شہری اور 5 فوجی یا پولیس افسران عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ سوات اور ملحقہ علاقوں کے بعد اب پشاور کے تاجروں نے بھی عسکریت پسندوں کی طرف سے بھتہ خوری کی دھمکیاں ملنے کی شکایات کی ہیں اور سکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

قبل ازیں ایک سیاستدان نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بھتہ دینے پرمجبور ہونے کا اظہار کیاتھا۔ کئی خاندانوں نے بھتہ وصولی اور دھمکیوں کی وجہ سے آبائی علاقوں سے ہجرت کر لی ہے۔

یاد رہے کہ 2014ء میں ٹی ٹی پی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کیاگیا تھا، اس کارروائی کے بعد پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حملوں میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم حال ہی میں ٹی ٹی پی نے ایک بار پھر خطرہ بنا شروع کر دیا ہے۔

پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کے دہشت گردی کیلئے استعمال کا شکوہ کیا جا رہا ہے، تاہم افغان طالبان کی حکومت مسلسل ٹی ٹی پی کی حمایت سے انکارکر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران سرحد پر افغان بارڈر فورسز کی جانب سے پاکستانی سویلین آبادیوں اور فورسز پر حملوں کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی کی حمایت سے انکار تو کر رہے ہیں، تاہم جتنے بھی لوگوں کو بھتے کیلئے فون کال کی گئی ہے، وہ تمام کالیں افغانستان کے نمبروں سے ہی کی گئی ہیں۔

’نیوز ایشیا‘ کے مطابق ٹی ٹی پی نے سوشل میڈیا کے ذریعے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے نومبر میں 59 حملے کئے، جن میں تقریباً 100 سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔ انہوں نے اکتوبر میں 48 حملوں کا دعویٰ کیا تھا۔

ڈان کے مطابق صرف گزشتہ ایک سال میں تحریک طالبان پاکستان گل بہادر گروپ، اسلامک اسٹیٹ خراسان اور اسی طرح کے دیگر دہشت گرد گروپوں نے خیبرپختونخوا میں کم از کم 165 دہشت گردانہ حملے کئے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلہ میں 48 فیصد زیادہ ہیں۔ ان حملوں میں سے ٹی ٹی پی نے 115 حملوں کو انجام دیا۔

سوات سمیت مختلف اضلاع میں شہریوں نے گزشتہ ہفتوں کے دوران دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز پرشدید احتجاج کیا ہے اور شہری دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہروں کے دوران ریاست کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts