خبریں/تبصرے

پاکستان: سینکڑوں افغان خواتین و بچوں کو ملک بدری کا سامنا، ہیومن رائٹس کمیشن کی مذمت

لاہور (جدوجہد رپورٹ) گزشتہ 3 روز میں 600 سے زائد افغان باشندوں کو پاکستانی حکام نے ملک بدر کیا ہے اور تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن میں مزید سینکڑوں کی ملک بدری متوقع ہے۔

’گارڈین‘ کے مطابق ہفتہ کو صوبہ سندھ سے 302 اور پیر کو 303 افراد کو افغانستان واپس بھیجا گیا ہے، جن میں 63 خواتین اور 71 بچے شامل ہیں۔ آنے والے دنوں میں مزید 800 افراد کو ملک بدر کئے جانے کی توقع ہے۔

اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار افغان پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

گزشتہ موسم گرما میں حکام نے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے افغان باشندوں کو ملک بدر کرنا شروع کیا تھا، تاہم اکتوبر کے بعد سے گرفتاریوں اور حراستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ صرف کراچی اور حیدرآباد میں تقریباً 400 افغان باشندوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں 129 خواتین اور 178 بچے شامل ہیں۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن 1951ء کو نہیں اپنایا ہے، جو ملکوں پر قانونی ذمہ داری عائدکرتا ہے کہ وہ سنگین نقصان سے بھاگنے والے لوگوں کی حفاظت کریں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی ایک وکیل مونیزا کاکڑ نے کہا کہ گرفتار کئے ئے افغان باشندوں میں سے تقریباً 400 کے پاس ان کے پاسپورٹ یا رہائشی کارڈز پر درست ویزے تھے، جو ان کے بقول پولیس نے انہیں جیل بھیجنے سے پہلے ضبط کر لئے تھے۔

اسلام آباد میں مقیم ایک وکیل عمر اعجاز گیلانی نے کہا کہ افغان پناہ کے متلاشیوں کو ملک بدر کرنا ’نان ریفولمنٹ اصول‘ (پناہ گزینوں کو زبردستی واپس وہاں بھیجنا جہاں ان پر ظلم ہو سکتا ہے) کی واضح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پر زور دیا کہ وہ ریاستی حکام کو ملک بدری روکنے کی ہدایت کریں۔

انکا کہنا تھا کہ این سی ایچ آر کا دائرہ اختیار ہے اور اگر وہ اسے استعمال کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ہم ہائی کورٹ میں جا سکتے ہیں۔ عمر اعجاز گیلانی اسلام آباد میں پناہ حاصل کرنے والے 100 افغان انسانی حقوق کے محافظوں کی حمایت کر ہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ان کے موکل سندھ میں گرفتاریوں سے بہت پریشان ہیں۔

پاکستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن کی ڈائریکٹر فرح ضیا نے افغانوں کے ساتھ سلوک، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی گرفتاریوں کی مذمت کی ہے، کیونکہ ان کی کمزوری ان کی جنس، عمر اور مقامی نیٹ ورکس کے ساتھ روابط کی کمی کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔

دسمبر میں کراچی میں قید خواتین اور بچوں کی لیک ہونے والی تصاویر بھی وائرل ہوئی ہیں۔ گزشتہ سال کمیشن نے حکومت کو خط لکھا تھا، جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کیلئے زیادہ انسانی پالیسی بنائے۔

سندھ حکام نے اپنے اقدامات کا دفاع کیا ہے۔ ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ حکومت صرف غیر قانونی تارکین کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، جو سفری دستاویزات کے بغیر رہ رہے ہیں۔

کراچی میں ایک رجسٹرڈ سیاسی پناہ کی درخواست گزار ندا امیری نے کریک ڈاؤن کے بعد سے بے نیند راتوں کے بارے میں بتایا کہ ان کے شوہر ایک اہم سرکاری اہلکار تھے اور افغانستان میں روپوش ہیں۔ دسمبر 2021ء میں کابل چھوڑنے کے بعد کراچی میں باورچی کے طور پر کام کرنے والی 47 سالہ ندا امیری کا کہنا تھا کہ ’میرے سرمیں درد ہے اور میرا بلڈ پریشر کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔‘

انکا مزید کہنا تھا کہ ’میں کابل واپس جانے کی بجائے جیل میں مرنا پسند کروں گی، جہاں ہم آزادانہ سانس بھی نہیں لے سکتے۔‘

ان کے پاس سوسائٹی فار ہیومن رائٹس اینڈ پریزنرز ایڈ (شارپ) کا رجسٹریشن کارڈ ہے، جو پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ ابتدائی طور پر پناہ کے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے شراکت کرتا ہے۔ تاہم ایک ملازم کا کہنا تھا کہ یہ کارڈ انہیں گرفتاری سے نہیں بچا سکتا۔

ندا امیری کی 21 سالہ بیٹی افشاں نور نے کہا کہ پاکستان میں رہنا شاید آسان نہ ہو، لیکن اگر انہیں واپس بھیجا گیا تو وہ اپنے گھر میں قیدی ہونگے۔ انکا کہنا تھا کہ ’ابھی عورت کیلئے یہ زمین پر سب سے بری جگہ ہے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ان کی 14 سالہ بہن اور 9 سالہ بھائی کو اب سکول جانے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ ان کی والدہ بہت پریشان ہیں کہ انہیں حراست میں لے لیا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ ’والدہ نے ہمیں ہمیشہ شارپ کارڈ ساتھ رکھنے اور گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرنے کیلئے کہا ہے۔ ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم چترال (افغانستان کی سرحد سے متصل شمالی پاکستان کا ایک علاقہ) سے ہیں۔‘

43 سالہ نادرہ نجیب ایک بیوہ اور 6 بچوں کی ماں ہیں، وہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں، جو ایک اکثریتی شیعہ مسلم اقلیتی گروپ ہے اور طالبان کے مظالم کا شکار ہے۔ وہ دو ماہ قبل اپنے 5 بچوں (دو بیٹیوں اور تین بیٹوں) کے ساتھ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے بھاگنے پر مجبور کیا گیا، ورنہ طالبان کی طرف سے میری بیٹیوں کی عصمت دری کی جانی تھی۔‘

انہوں نے کابل چھوڑنے سے قبل اپنی بڑی بیٹی کی شادی ایک کزن کے بیٹے سے کر وا کر اسے وہیں چھوڑ دیا تھا۔

نادرہ اب کراچی میں ماہی گیری کا کام کرتی ہیں۔ انہوں نے سیاہ عبایہ پہننا شروع کر دیا ہے۔ انکے مطابق اس طرح کوئی نہیں بتا سکتا کہ وہ افغان ہیں یا ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ’میں نے بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے یہ مشکل سفر کیا۔ اگر ہمیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور پھر واپس بھیج دیا گیا تو یہ سب کچھ بے کار ہو جائیگا۔‘

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ تنظیم دوبارہ آبادکاری کیلے پناہ کے سب سے زیادہ کمزور کیسوں کی نشاندہی کرنے کیلئے کام کر رہی ہے، جن میں خواتین کی سربراہی کرنے والے گھرانے اور ایسے خاندان شامل ہیں، جن کے بچے خطرے میں ہیں۔ یو این ایچ سی آر پناہ گزینوں کیلئے پائیدار حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پناہ دینے حکومتوں پر منحصر تھا۔

انکا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے پوری پناہ گزین آبادی کیلئے دوبارہ آبادکاری دستیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ مواقع محدود ہیں۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts