تاریخ

علامہ اقبال کبھی بھی نوبل انعام کے لیے نامزد نہیں ہوئے: مفروضے اور حقیقت

ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی

اس ہفتے نوبل انعام دیئے جانے کے موقع پر یہ مضمون قارئین کے لئے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

تحقیق عام طور پر مفروضے کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے۔ اقبال کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی اور اس کے حصول میں ناکامی اگرچہ ایک مفروضہ ہی ہے لیکن اسے چند حقائق سے کچھ ایسی تقویت حاصل ہوئی ہے کہ یہ مفروضے کی منزل سے کچھ آگے کی چیز بن گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، جنہیں اقبال پیا ر سے ”ماسٹر“ کہتے تھے اور جو اقبال کے ہاں مدتو ں کے آنے جانے والوں میں سے تھے، انھوں نے نوبل انعام نہ دئیے جانے کو ”مغرب کی سیاسی مصلحت “(۱ )قرار دیتے ہوئے کہا:”۔ ۔ ۔ اس سے ہندوستان کے تمام اہلِ علم کو دکھ ہوا“ (۲)۔

محمد اکرام چغتائی نے رام بابو سکسینہ کے حوالے سے اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ ایک زمانے میں اقبال کا نام نوبل انعام کے لیے حق دار امیدواروں میں لیا جانے لگا تھا، اس کے علاوہ فقیر سید وحید الدین کی ”روز گارِ فقیر“، سید قدرت نقوی کی ”غالب آگہی “ میں غلام رسول مہر کا ایک مکتوب اورروز نامہ امروز، لاہوربتاریخ 12 اپریل 1950ءکے علاوہ کئی ایسے حوالے موجود ہیں کہ جنہیں اکرام چغتائی نے اپنی تصنیف ”ٹیگور اینڈ اقبال “  میں درج کیا ہے(۳)۔

ان تمام حوالوں کی روشنی میں اقبال کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی اور ان کے احباب کی گرم جوشی محض مفروضہ نہیں رہ جاتی۔ ” اسرارِ خودی “ کی اشاعت کے تھوڑے ہی عرصے بعد اس کے انگریزی ترجمے اور تبصروں کی اشاعت اور پھر آگے چل کر ” پیامِ مشرق“ کے تراجم جیسی کاوشیں اس مفروضے کو مزید تقویت دے جاتی ہیں۔

ہائیڈل برگ یونیورسٹی (جرمنی) میں اپنے زمانہ قیام کے دوران میری یہ آرزو بھی تھی کہ سویڈش اکیڈمی، سٹاک ہوم (سویڈن) میں موجود اس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی جائے کہ جسے پچاس سال گزرنے کے بعد وہاں کے اربابِ اختیار منظرِ عام پر لے آئے ہیں اور جس کے مشاہدے سے کئی غلط فہمیوں کی درستی ہو سکتی ہے اورنئے حقائق بھی سامنے آسکتے ہیں۔

میرا یہ سفر بنیادی طور پرعلامہ اقبال کے حوالے سے تھاکیونکہ نوبل انعام کے لیے علامہ اقبال کی نامزدگی اور ردوقبولیت کے باب میں اس ریکارڈ سے بہتر ماخذ ممکن نہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے اس ریکارڈ کی مدد سے علامہ اقبال اور نوبل انعام کے حوالے سے افواہوں اور اس سے زیادہ داستانوں کی حقیقت باآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔

اس ریکارڈ کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کیا اقبال اور ٹیگور ایک ہی برس اس انعام کے امیدوار تھے ؟کیا کبھی اقبال کا نام اس انعام کے حصول کی خاطر نامزد بھی ہوا تھا یا نہیں، اگر ان کا نام تجویز کیا گیا تھاتو نامزدگی کس نے اور کس سال میں کی تھی، ان کے مدِ مقابل کتنے امیدوار تھے اور ان کا تخلیقی قد کاٹھ کس ڈھب کا تھااوراگر اقبال کا نام اس انعام کے لیے رد کیا گیا تو اس کی وجوہات کیا تھیں۔ اس نوع کے کئی سوالات کا جواب سویڈش اکیڈمی میں موجود ریکارڈہی میں مل سکتا ہے۔ میرا گما ن ہے ابھی تک کسی نے سٹاک ہوم میں موجود اس ریکارڈ کا جائز ہ اس حوالے سے نہیں لیا، اگر اس ریکارڈ کو کھنگالا گیا ہوتا تو اس باب میں اتنی داستانیں جنم نہ لیتیں۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ اقبال کو نوبل انعام ملنے یا نہ ملنے کی یہ داستانیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ اقبال کے احباب نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس کی تفصیل اگلے صفحات میں ملاحظہ کی جاسکے گی۔

سویڈش اکیڈمی کی انتظامیہ نے اپنی پالیسی کے مطابق 1910ءسے لے کر 1922ء تک کے ریکارڈ تک رسائی دی جسے زمانی اعتبار سے مرتب کیا گیا تھا۔ ہر سال کا ریکارڈ جداجدا ہے لیکن ضخامت کے سبب اسے دو جلدوں کی صورت دے دی گئی تھی۔ پہلی جلد 1901ءسے 1921ء تک جبکہ دوسری 1922ءسے 1950ء تک کے زمانے کا احاطہ کرتی ہے۔ ان جلدوں کے آخر میں افراد کا اشاریہ حروفِ تہجی کے تحت دیا گیا ہے جس کی مددسے مطلوبہ شخصیت سے وابستہ ریکارڈ  تک با آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ اس ریکارڈ میں ہر سال کے لیے نامزد کیے جانے والے تخلیقی فن کاروں کے نام، تجویز کنندہ (فرد یا ادارہ) کی تفصیل، کمیٹی کے جلسوں کی روداد، کمیٹی میں شامل اراکین کی آرا اور سفارشات، چیئرمین کی حتمی رپورٹ اور ہر برس کے لیے نوبل انعام دینے کا اعلامیہ وغیرہ شامل ہے۔

اس ریکارڈ کی مدد سے بڑی سہولت کے ساتھ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ 1922ء تک ہر سال کل کتنے ادیب اور شاعر اس انعام کے لیے نامزد کیے گئے تھے۔ مثال کے طور پر ٹیگور کو جس برس نوبل انعام ملا، اس سال ٹیگور سمیت اٹھائیس شخصیات کی نامزدگی کی گئی ( ۴)۔ ہر ادیب اور شاعر کے نام کے ساتھ اسے نامزد کرنے والے فرد یا ادارے کا نا م بھی دیا گیا ہے۔ تاہم، نامزدگی کرنے والے کے حوالے سے کچھ ناقابل فہم معاملات بھی دکھائی پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر میکسم گورکی کو 1923ء میں نامزد کیا گیا تھالیکن ریکارڈ میں ان کے نام کے ساتھ تجویز کنندہ کانام موجود نہیں۔ ٹالسٹائی کی اس انعام کے لیے نامزدگی اور رد کیے جانے کا ہمیں علم تھا لیکن گورکی کی نامزدگی اور رد ہونے کا علم ہمیں اس ریکارڈ( ۵) کی مدد ہی سے حاصل ہوا جو اپنی جگہ ایک انکشاف سے کم نہ تھا۔ گورکی کو 1923ء میں نامزد کیا گیا جبکہ انعام مسلسل نامزد ہونے والے ییٹس کو ملا(۶)۔

اس ریکارڈسے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نوبل انعام حاصل کرنے کے لیے ایک ہی ادیب یا شاعر کتنی بار نامزد ہوا تھا۔ مثال کے طور پر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا نام مسلسل چار سالوں تک نامزد کیا جاتا رہا تھا۔ 1945ء میں ایلیٹ کو پہلی بارنامزد کیا گیا لیکن اس سال نوبل انعام مسٹرال گیبری ایلا کو ملا۔ 1946ء میں ایک بار پھر انہیں نامزد کیا گیا لیکن انعام جرمنی کے ہرمن ھیسے کو دیا گیا۔ 1947ء میں جب تیسری بار ایلیٹ کا نام تجویز کیا گیا تو اس سال کا انعام گیڈی اندرے کو ملا۔ مسلسل چوتھی مرتبہ نامزدگی کے بعد 1948ء میں ایلیٹ نوبل انعام کے حصول میں کامیاب ہوئے(۷)۔ خیال رہے کہ نوبل انعام کی نامزدگی میں مجوزہ ادیب کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔

نامزدگیوں اور ناکامیوں کے اس تسلسل سے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے جاہ وحشم اور دیناوی منفعت سے بے نیازانہ روش کے مجموعی تاثر کو خاصا ضعف پہنچتا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ ہوں کہ ہرمن ھیسے، جارج برنارڈ شا ہوں کہ سارتریا ییٹس وغیرہ ان سب کے ہاں انعام واکرام سے دور بھاگنے کے معاملات اس ریکارڈ کی روشنی میں محض داستانیں ہی ہیں۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایلیٹ کو ایک آدھ نہیں بلکہ کئی لوگوں نے بیک وقت اس انعام کے لیے نامزد کیا تھا جن میں پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈانلڈاور کولمبیا یونیورسٹی سے جسٹن او برین کا نام 1948ء کی نامزدگیوں میں موجود ہے(۸)۔ ایلیٹ کی چار بار نامزدگی ایک طرف، اٹھارہ اٹھارہ بار نامزدگیوں کے بعد نوبل انعام حاصل کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں ( ۹)۔ بہت کم ادیب اور شاعر ایسے ہیں کہ جنہیں پہلی نامزدگی پر نوبل انعام ملا(۱۰)۔

ادب کے میدان میں مسلمانوں کی نامزدگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس حوالے سے ایک آدھ جو نامزدگی ملتی ہے وہ مصر کے ادیبوں کی ہے۔ اس ریکارڈ کی رو سے طہٰ حسین کو قاہرہ سے لطف السید نے 1949ء میں اس انعام کے لیے نامزد کیا تھا( ۱۱) لیکن انھیں انعام نہ مل سکا۔ ادب کے میدان میں مسلمان نوبل انعام یافتہ کی صرف ایک مثال نجیف محفوظ کی ہے کہ جس سے سبھی واقف ہیں۔ ہم، ان کی دستاویزات اور دیگر ریکارڈ نہ دیکھ سکے کیونکہ انعام ملنے کے پچاس سال بعد ہی ریکارڈ منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔

علامہ اقبال اور ٹیگور کی نوبل انعام کے لیے ایک ہی سال میں نامزدگی کے مفروضے کی حقیقت جاننے کے لیے ضروری تھا کہ جس برس ٹیگور کو نوبل انعام سے نوازا گیا، اس برس کے ریکارڈ کی جانچ سب سے پہلے کی جائے۔ ٹیگور کو 1931ءمیں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ سویڈش اکیڈمی میں اس سال کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس برس کے لیے آنے والی نامزدگیوں کی تعداد اٹھائیس ہے جن کافرداً فرداً جائزہ لینے اور نامزد کرنے والے افراد اور اداروں کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ تاہم، اس سال کی فہرست میں معروف ناول نگار تھامس ہارڈی اور اناطول فرانس(۱۲) کے اسما قابلِ ذکر ہیں کہ جن پر ٹیگور کو فوقیت دی گئی۔

اس سال کی فہرست میں علامہ اقبال کا نام موجود نہیں ہے جس سے اس قیاس کو اب ختم ہوجانا چاہیے کہ اقبال اور ٹیگور ایک ہی سال نو بل انعام کے لیے نامزد کیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی اس غلط روایت کا خاتمہ بھی ہو جانا چاہیے جس کی رو سے اقبال کے ہاں اسلامی تصوارت کی گہری چھاپ بالخصوص جذبہ جہاد کی پرزور حمایت کرنے والے ایسے عوامل مغربی دنیا کے اس بڑے ادبی انعام کے معیارات پر پورے نہ اترے اوریوں پٹ سن کے ریشوں کے خوش لمس احساس سے وابستہ ٹیگور کو اس انعام سے نوازا گیا۔ اس نوع کے مفروضوں، قیاسات اور داستانوں کی شواہد سے کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔

سویڈش اکیڈمی میں موجود اس ریکارڈ کے علاوہ دیگر کئی ایسے شواہد اور حقائق موجود ہیں کہ جن کی رو سے اقبال اور ٹیگور کا ایک ہی برس نوبل انعام کے لئے نامزد ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ 1931ء تک اقبال کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہواتھا۔ ان کا اولیں شعری مجموعہ ” اسرارِ خودی “ ٹیگور کو انعام ملنے کے دو سال بعد شائع ہوا جبکہ نوبل انعام کی نامزدگی کے لئے کسی نہ کسی تخلیقی کتاب کا بھجوانا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اقبال 1931ء میں اپنے کسی تخلیقی مجموعے کے بغیر نوبل انعام کے لیے نامزد کیے گئے ہوں۔ 1931ء کا زمانہ ”اسرارِ خودی “ کی تخلیق کا زمانہ ہے۔ اس عرصے میں اقبال کے روز وشب ریکارڈپر ہیں۔ نہ صرف سویڈش اکیڈمی بلکہ حیاتِ اقبال سے بھی اس امر کی نفی ہوتی ہے کہ اقبال اور ٹیگور ایک ہی سال (1931ء) میں نوبل انعام کے لیے نامزد کیے گئے تھے۔

1931ءکے ریکارڈ کی جانچ کے بعد دوسرا مرحلہ اقبال کے سالِ وفات (1938ء) تک کے ریکارڈ کی چھان پھٹک کا تھا۔ اس امر کے لیے نہایت اور سادہ طریقہ یہ تھا کہ ریکارڈ کی دونوں جلدوں میں اشخاص کے اشاریے سے اقبال کا نام تلاش کیا جائے۔ ہم نے ممکنہ طور پر اقبال کے مکمل نام کو ہر پہلو سے اس اشاریے سے تلاش کیا لیکن ایم، آئی، ایس، اے اور ڈی کے مندرجات میں اقبال کا نام کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ ہم نے اشاریے کے علاوہ اصل ریکارڈ کو بھی کھنگال ڈالا کہ اشاریہ بناتے ہوئے غلطی کا احتمال رہ جاتا ہے۔ دیگر سالوں کے ریکارڈ کی پڑتال کے بعد بھی ہمیں اقبال کا نام تلاش کرنے میں ناکامی رہی۔ اب یہ واضح ہو چلا تھا کہ اقبال کبھی بھی نوبل انعام کے لیے نامزد نہیں ہوئے۔

بزرگ محققین سے سنتے چلے آئے ہیں کہ تحقیق میں شک کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو خواتین میں صفِ اول کی محقق بننے کے اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں لیکن نہ جانے یہ سرمایہ کن مدوں میں صرف ہوتا ہے۔ سویڈش اکیڈمی میں سامنے دھرے ہوئے اس ریکارڈ میں اقبال کا نام نہ پا کر ہمیں ایک شک سا گزرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو ریکارڈ دکھایا گیا ہے، وہ صرف ان افراد کا ہو کہ جن کی نامزدگی معیارات کے مطابق ہوئی تھی۔

ہمیں گمان سا گزرا کہ کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی ایسی نامزدگی بھی ہوئی ہو گی کہ جو سویڈش اکیڈمی کے معیارات سے مطابقت نہ رکھتی ہو اور یہاں کے اربابِ اختیار نے اس نامزدگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس پر غور ہی نہ کیا ہو۔ ممکن ہے کہ اقبال کو کسی ایسے فر د یا ادارے نے نامزد کیا ہو کہ جو اس کا مجاز ہی نہ تھا اور اس کے سبب ان کا نام شامل ہی نہ ہو سکا ہو۔

یہ حجت پوری کرنے کے لیے ہم نے ایک بار پھر انتظامیہ سے رابطہ کیا اور اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ان نامزدگیو ں کا ریکارڈ بھی درکار ہے کہ جن پر غور ہی نہیں کیا گیا۔ انتظامیہ نے اس قسم کے ریکارڈ کی موجودگی سے انکار کیا۔ ان کے خیال کے مطابق ہر نوع کی نامزدگی کاریکارڈ انہی دو جلدوں میں محفوظ ہے جو ہم دیکھ چکے تھے۔ جب ہما را صرار زیادہ بڑھا تو ہمارے میزبان ریاض الحسن نے چپکے سے کان میں کہا کہ ان کا اعتبار کر لیں یہ جھوٹ نہیں بولتے۔

ادھر انتظامیہ نے خالص محققانہ انداز میں سوال کیا کہ سر اقبال کی نامزدگی کے حوالے سے آپ کا ماخذ کیا ہے ؟ ادھر کوئی قابلِ ذکر ماخذ نہ تھا، بس چند مفروضے، قیاسات اورداستانیں تھیں۔ ان لوگوں نے ہمیں بتلایا کہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی محقق کسی نہ کسی ملک سے مفروضے کا نازک دھاگا تھامے یہاں چلا آتا ہے اور حقائق کو دیکھ کر بڑا کبیدہ ہوتا ہے۔ ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اس کبیدگی کو دیکھتے ہوئے لائبریرین نے کہا کہ آپ کے اطمینان کے لیے ہم لائبریری میں موجود کتب کو دیکھ لیتے ہیں۔ اگر وہاں سر اقبال کی کسی کتاب کا اندراج ان کی حیات کے زمانے میں درج ہوا تو اس کا امکان ہو سکتا ہے کہ وہ نامزد کیے گئے تھے اور ہمارا ریکارڈ اصلاح طلب ہے۔ سویڈش اکیڈمی کی لائبریری میں ہر اس ادیب اور شاعر کی وہ خاص کتاب موجود ہے جس کی بنا پر اس کی نامزدگی کی گئی تھی اور وہ کتاب نامزدگی کے ساتھ ارسال کی گئی تھی۔

سویڈش اکیڈمی کے کتب خانے میں اقبال کی کتاب کا پہلا اندارج 1935ءکا تھا۔ اقبال کی وفات اور 1935ء میں خاصا زمانی فاصلہ ہے۔ ان تمام تر حوالو ں سے واضح ہو چلا تھا کہ علامہ اقبال کی نوبل انعام کے لئے نامزدگی کسی بھی مرحلے پر نہیں ہوئی تھی۔ سویڈش اکیڈمی صرف مجوزہ ناموں پر غور کرتی ہے، اپنے تئیں کسی کو نامزد کرنا اور انعام دینے کا اختیار کمیٹی کو حاصل نہیں۔ ہمارے یہاں کے علمی وادبی حلقوں میں اقبال کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی اور ردوقبولیت کے باب میں موجود تمام تر روایتیں ایسی ہیں کہ جن کی شواہد سے تصدیق نہیں ہوتی۔

علامہ اقبال کے قریبی احباب ان کے لئے نوبل انعام کی جو خواہش رکھتے تھے، ان کی اس امنگ کے معاشی تناظر کو نظرانداز کرنا آسان نہیں۔ ان کے دوستوں کی خواہش تھی کہ اقبال کسی نہ کسی طور مالی مسائل سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنی تمام تر توجہ شعر واد ب اور فلسفہ کی جانب مبذول کریں۔ محمد اکرام چغتائی نے غلام رسول مہر کے ایک مکتوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ” اسرارِ خودی “ کے انگریزی ترجمے کا مقصد نوبل انعام کا حصول نہ تھا لیکن ان کے زیادہ تر احباب کی خواہش تھی کہ انھیں نوبل انعام مل جائے تاکہ وہ اپنی مالی پریشانیوں سے چھٹکارا پاکر اپنے آپ کو شعر و ادب کے لیے وقف کریں (۱۳)۔ خود علامہ اقبال بھی اپنے احباب کی اس امنگ سے واقف تھے اور اپنے بے نیازانہ رویے میں ان کی اس نوع کی کاوشوں کی حمایت بھی کر دیا کرتے تھے۔ عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں:” پیام ِمشرق کی اشاعت کے بعد دوستوں نے علامہ سے اس کتاب کا ایک مصور ایڈیشن شائع کرنے کی درخواست بھی کی تھی کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ علامہ کو نوبل پرائز ضرور ملے گا اور اس کے شایانِ شان مصور ایڈیشن نہایت ضروری تھا۔ اس سے پہلے ٹیگور کی کتاب ”گیتا نجلی “ کا بھی ایک مصور ایڈیشن شائع ہوچکا تھا جس پر ییٹس نے انگریزی زبان میں مقدمہ لکھا تھا“(۱۴)۔

حیاتِ اقبال سے آگہی رکھنے والے جانتے ہیں علامہ اقبال نے نہ صرف ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے حکیم احمد شجاع کے ساتھ مل کر چھٹی، ساتویں اورآٹھویں جماعت کے لیے اردو کی درسی کتب مرتب کیں بلکہ جامعہ پنجاب کے لیے ممتحن بھی رہے۔ درسی کتب کی تدوین سے لے کر امتحانی پرچوں کی جانچ او ریورپ سے واپسی کے بعد بیک وقت گورنمنٹ کالج لاہور اور لاہور کورٹ میں کام کرناایسے کئی عوامل موجود ہیں جو اس دانائے راز کی اس تگ و دو کو ظاہر کرتے ہیں جو ان کے بڑے بھائی شیخ عطا کے بقول ان کی ڈگریوں کانہ جانے کب اجرا ہو گا۔ اس نوع کے معاشرتی اور معاشی ڈھب میں ان کے دوستوں کا نوبل انعام کے لیے پرعزم ہونا جاہ وحشم سے زیادہ معاشی تناظر رکھتا ہے۔

نوبل انعام کے حصول کے لیے خود علامہ کی اپنی شخصیت میں بلا کی ایک رکاوٹ تھی جو ان کے غیر معمولی فکری ارتقا کا نتیجہ ہے۔ ہفت افلاک کی سیر کی مانند انھوں نے اپنا فکری سفر زقندوں میں طے کیا۔ ان کی زندگی میں ان کا فکری ارتقا نمایا ں تر ہے کہ جو غیر معمولی انداز میں ہوا۔ ان کی فکر کے دھارے جن مقامات سے پھوٹ رہے تھے وہاں ایسے جاہ وحشم کے معاملات بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ا ن کے سامنے جب بھی کبھی ٹیگور کے انعام یافتہ ہونے کا اور انھیں محروم رکھے جانے کا ذکر ہوا تو انھوں نے کمالِ عجز کے ساتھ اس معاملے کو ٹال دیا(۱۵)۔

نوبل انعام کے لیے ٹیگور کی کامیابی اور اقبال کی نارسائی کے دیگر پہلو وں کے ساتھ ساتھ ان دونوں شعرا کے مغربی ممدوحین کے مزاج اور اثر ورسوخ کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اقبال مغربی دنیا میں پروفیسر نکلسن جبکہ ٹیگور ییٹس کی وساطت سے متعارف ہوئے۔ ییٹس مغرب کے ادبی حلقوں میں نہایت سرگرم اور کچھ حد تک جوڑ توڑ کے آدمی تھے۔ مغرب کی ادبی تنظیموں کے لیے عہدہ داران کے چناو، تقریبات اور ہر نوع کے گٹھ جوڑ کے باب میں ییٹس خاصے فعال رہا کرتے تھے۔ جس کا اندازہ ان کے اس ایک مکتوب سے کیا جاسکتا ہے:

We need three people to nominate anybody, I think that is our rule. You and I, say, Binyon put Shaw. He may not be elected but we must risk it. Even more important, for I think it would be easy to get three people for Shaw, is will you join in nominating Wilfird Blunt? I would ask George Wyndham, a great friend of his to propose him. (۱۶)

ییٹس کا خط سٹرگے مورکے نام ہے۔ مور رائل سوسائٹی آف لٹریچر کے ممبر تھے اور سویڈش اکیڈمی کے ریکارڈ کے مطابق انھوں نے ہی ٹیگور کانام نوبل انعام کے لیے تجویز کیا تھا۔ اس تجویز کے پیچھے محرک قوت کے طور پر ییٹس کا نام ہی سامنے آتاہے۔ انھوں نے ”گیتا نجلی “ پر نہ صرف انگریزی میں بھرپور تعارفی مضمون لکھا بلکہ ٹیگور کو مغربی دنیا سے متعارف کرانے کی بھر پور کوششیں کیں۔ اس طور دیکھا جائے تو ییٹس کا حلقہ احباب اور ذاتی اثرورسوخ اپنے عہد میں فوری مقبولیت اور منفعت کے لیے موزوں تھاجبکہ پروفیسر نکلسن کا دائرہ اثر آنے والے زمانے کے لیے موزوں تھا۔ یہی وجہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کی شہرت مغربی دنیا میں ٹیگورکے برعکس روز افزوں ہو رہی ہے۔

میرامشاہدہ ہے کہ اقبال اس اعزاز کی بیساکھی کے بغیر ہر تہذیب کی علمی سرزمین پر پورے قد وقامت کے ساتھ تیقن کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ اس انعام کے حامل کئی تخلیق کاروں کی بیساکھی کو ایسا گھن لگا کہ ان کا پورے قد سے کھڑے رہنا محال ہو گیا ہے۔ اب آخرمیں اس ای میل کا تذکرہ کہ جو سویڈش اکیڈمی سے واپسی پر ہمیں موصول ہوئی۔ یہ ای میل ( 23.12.08)سویڈش اکیڈمی کی نوبل کمیٹی کے اسسٹنٹ سکریڑی ہرمیلن کیرولا کی جانب سے ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :

There is no nomination of Sir Muhammad Iqbal in the archives of the Swedish Academy.

حواشی و حوالہ جات:

۱۔ چغتائی، محمد عبداللہ، ڈاکٹر: ” اقبا ل کی صحبت میں “ لاہور، مجلسِ ترقی ادب، 1977ئ، ص 141۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایضاً۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۳۔ Tagore and Iqbal by M Ikram Chagatai, Sang-e-Meel Publications, 2002, p
56۔

۴۔ UR Svenska Akademines Arkive: Nobelpriset 1, Litteratur, Del 1, 1901-1920, Stockholm, Sweden P.285-286.

۵۔ UR Svenska Akademines Arkive: Nobelpriset 1, Litteratur, Del 2, 1921-1950, Stockholm, Sweden P.36

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایضاً۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۷۔ Svenska Akademines Arkive: Nobelpriset 1, Litteratur, Del 2, 1921-1950, Stockholm, Sweden P.446,447

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایضاً۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

۹۔ سویڈش اکیڈمی کے ریکارڈ کے مطابق1922 ءتک سب سے زیادہ نامزدگی جونس جنسرا کی ہوئی۔ انھیں اٹھارویںنامزدگی کے بعد1944ءمیں نوبل انعام ملاتھا۔ ان کی پہلی بار نامزدگی1925 میں کی گئی تھی۔
(UR Svenska Akademines Arkive: Nobelpriset 1, Litteratur, Del 2, 1921-1950)

۱۰۔ 1901 ءسے لے کے 1922ءتک پہلی ہی بار نامزد گی پر نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی تعداد صرف دس ہے۔ ٹیگور کو بھی پہلی نامزدگی پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔ اس وقت کی کمیٹی کے چیئرمین نے ٹیگورکے حوالے سے اس امر پر زور دیا تھا کہ ہمیں اس تخلیق کار کو انعام سے نوازنے کے لیے کچھ سالوں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

۱۱۔ UR Svenska Akademines Arkive: Nobelpriset 1, Litteratur, Del 2, 1921-1950, Stockholm, Sweden P.397

۱۲۔ UR Svenska Akademines Arkive: Nobelpriset 1, Litteratur, Del 1, 1901-1920, Stockholm, Sweden P.285-286.

۱۳۔ Chagatai,M.Ikram: "Iqbal and Tagore” P.55,56

۱۴۔ چغتائی، عبداللہ، ڈاکٹر: ” اقبال کی صحبت میں “ ص 141۔

۱۵۔ ” اگر مجھے نوبل انعام مل چکا ہوتا، تو پھر مجھ یہ سوال کیا جانا چاہیے تھا کہ میں کون سے کارہائے نمایاں انجام دینے پر اس کامستحق سمجھا گیا ہوں۔ ۔ ۔ لیکن نہ ملنے پر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ “(روز گارِ فقیر از فقیر سید وحیدالدین، کراچی، لائن آرٹ، بارششم 1922ئ، ص130)۔

۱۶۔ Yeats, W.B: ”W.B Yeats and T.Sturge Moore, Their Correspondence 1901-1937″ ed. by Ursula Bridge,London, Routledge & Kegan Paul Ltd. 1953,P.19

نوٹ: مندرجہ بالا تحقیقی مقالہ پہلی بار ہفت روزہ ”وئیو پوائنٹ آن لائن“ میں شائع ہوا تھا۔

Khalid Mehmood Sanjrani
+ posts

پروفیسر خالد محمود سنجرانی گورنمنٹ کالج لاہوریونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔