فاروق سلہریا
1960ء کی دہائی سے کیوبا پر لاگو امریکی پابندیوں کے نتیجے میں کیوبا کو 933 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ تخمینہ سونے کے مقابلے پر ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔
اگر تخمینہ اس بنیاد پر لگایا جائے کہ ڈالر چالیس یا پچاس سال قبل کتنے کا تھا اور اس سے کونسی چیز کتنی مقدار میں خریدی جا سکتی تھی، تو بھی کیوبا کو ان معاشی پابندیوں کی وجہ سے اب تک کم از کم 138 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
یہ اعداد و شمار کیوبا کے وزیر خارجہ برونو رودریگز نے پچھلے ہفتے پیش کئے ہیں۔ یاد رہے 8 نومبر کو کیوبا اٹھائیسویں مرتبہ اقوام متحدہ میں یہ قرار داد پیش کرے گا کہ اس کے خلاف امریکی اقتصادی پابندیاں ختم کی جائیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان پابندیوں کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ ان نئی سختیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپریل 2018ء سے لے کر مارچ 2019ء تک، کیوبا کو 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
جب تک سویت یونین موجود تھا، کیوبا ان پابندیوں کا با آسانی مقابلہ کرتا رہا۔ نوے کی دہائی میں مشکلات بہت بڑھ گئیں۔ بعد ازاں، جب لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک، بالخصوص وینزویلا میں، بائیں بازو کی کیوبا دوست حکومتیں قائم ہوئیں تو کیوبا کو پھر سے سانس لینے کا موقع ملا۔
اب لاطینی امریکہ میں یا تو بائیں بازو کو برازیل جیسے اہم ممالک میں شکست ہو چکی ہے یا ایسی حکومتیں خود شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کیوبا کی مثال ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر رہی ہے کہ ایک ملک میں سوشلزم ممکن نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ کیوبا باقی دنیا میں انقلاب کا انتظار نہیں کر سکتا۔ کیوبا میں انقلاب کو بچانے کے لئے محنت کش طبقے کی عالمی یکجہتی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ترقی پسند قوتوں کا پاکستانی حکومت سے یہ بھر پور مطالبہ ہونا چاہئے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے خلاف کیوبا کے حق میں ووٹ دے تا کہ کیوبا کے عوام کے خلاف ساٹھ سالہ امریکی معاشی دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے جو ان کی اجتماعی ترقی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔