’چادر اور چار دیواری‘ پاکستان کے بد ترین آمر جنرل ضیا الحق کی بدنام زمانہ پالیسیوں کا جزو تھی جس کا مقصد ملک کی نصف آبادی کو مردوں کے زیر نگیں رکھنا تھا۔ صحافیوں، دانشوروں اور خواتین نے اس پالیسی کے خلا ف بھرپور احتجاج کیا۔ ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اس نظم میں اس وقت کے مقتدر ٹولے کے اصل چہروں کو بے نقاب کیا اوریہ نظم آمریت کے خلاف ایک احتجاجی نعرہ بن کر ابھری۔
حضور میں اس سیاہ چادر کا کیا کروں گی
یہ آپ کیوں مجھ کوبخشتے ہیں بصد عنایت
نہ سوگ میں ہوں کہ اس کو اوڑھوں
غم و الم خلق کو دکھاؤں
نہ روگ ہوں میں کہ اس کی تاریکیوں میں خفت سے ڈوب جاؤں
نہ میں گناہ گار ہوں نہ مجرم
کہ اس سیاہی کی مہر اپنی جبیں پہ ہر حال میں لگاؤں
اگر نہ گستاخ مجھ کو سمجھیں
اگر میں جاں کی امان پاؤں
تو دست بستہ کروں گزارش
کہ بندہ پرور
حضور کے حجرہ معطر میں ایک لاشہ پڑا ہوا ہے
نہ جانے کب کا گلا سڑا ہے
یہ آپ سے رحم چاہتا ہے
حضور اتنا کرم تو کیجئے
سیاہ چادر مجھے نہ دیجیے
سیاہ چادر سے اپنے حجرے کی بے کفن لاش ڈھانپ دیجئے
کہ اس سے پھوٹی ہے جو عفونت
وہ کوچے کوچے میں ہانپتی ہے
وہ سرپٹکتی ہے چوکھٹوں پر
بر ہنگی تن کی ڈھانپتی ہے
سنیں ذرا دل خراش چیخیں
بنارہی ہیں عجب ہیولے
جو چادروں میں بھی ہیں برہنہ
یہ کون ہیں جانتے تو ہوں گے
حضور پہچانتے تو ہوں گے
یہ لونڈیاں ہیں
کہ یر غمالی حلال شب بھر رہے ہیں
دم صبح در بدر ہیں
حضور کے نطفے کو مبارک کہ نصف ورثے سے بے معتبر ہیں
یہ بیبیاں ہیں
کہ زوجگی کا خراج دینے
قطار اندر قطار باری کی منتظر ہیں
یہ بچیاں ہیں
کہ جن کے سرپر پھرا جوحضرت کا دست شفقت
تو کم سنی کے لہو سے ریش سپید رنگیں ہو گئی ہے
حضور کے حجلہ معطر میں زندگی خون رو گئی ہے
پڑا ہواہے جہاں یہ لاشہ
طویل صدیوں سے قتل انسانیت کا یہ خوں چکاں تماشہ
اب اس تماشے کو ختم کیجئے
حضور اب اس کو ڈھانپ دیجئے
سیاہ چادر تو بن چکی ہے مری نہیں آپ کی ضرورت
کہ اس زمیں پر وجود میرا نہیں فقط اک نشان شہوت
حیات کی شاہ راہ پر جگمگا رہی ہے میری ذہانت
زمیں کے رخ پر جو ہے پسینہ تو جھلملا رہی ہے میری محنت
یہ چار دیواریاں یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک
کھلی فضاؤں میں بادباں کھول کر بڑھے گا مرا سفینہ
میں آدم نو کی ہم سفر ہوں
کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت