فاروق طارق
23 مارچ 2023ء کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھگت سنگھ اور انکے ساتھیوں کو لاہور میں پھانسی دئیے جانے کے 92 ویں سال کے موقع پر ان کی برطانوی سامراج کے خلاف شاندار جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔
شادمان چوک (بھگت سنگھ چوک) لاہور اور بھگت سنگھ کے اپنے گاؤں سمیت دنیا بھر میں تقریبات ہوں گی اور آزادی کے ان تینوں ہیروز کو شاندار خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔
بھارت میں بھگت سنگھ کو سرکاری قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان میں بھگت سنگھ کے نام پر اس چوک کو بھی بھگت سنگھ چوک قرار نہ دیا جا سکا، جہاں انہیں اور انکے ساتھیوں کو 23 مارچ 1931ء کو پھانسی دی گئی تھی۔ یہ چوک اب شادمان چوک کہلاتا ہے۔
بھگت سنگھ کون تھا؟ اس کے نظریات اور جدوجہد کی تاریخ پر اس تحریر میں جائزہ لیا جائے گا۔
بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907ء کو جڑانوالہ کے نواحی گاؤں 105 گ ب بنگیانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام کشن سنگھ جب کہ والدہ کا نام ودیا وتی تھا۔
بھگت سنگھ کو انقلابی اور ترقی پسند نظریات گویا ورثے میں ملے تھے کیونکہ اُنکے والد کشن سنگھ اور چاچا تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے اور دادا ارجن سنگھ بھی بھارت کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے، جو ہندو آریا سماج پارٹی کے رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔
بھگت سنگھ نے ایسے خاندان نے جنم لیا جو کہ ان کی پیدائش سے قبل ہی انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بھگت سنگھ کی عمر بارہ سال تھی جب 1912ء میں جلیانوالہ باغ امرتسر میں جنرل ڈائر کے حکم پر لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں اور سینکڑوں کو شہید کر دیا تھا۔ آج تک ان شہدا کی اصل تعداد کا تعین نہ ہو سکا ہے۔ اس واقع سے پورے برصغیر میں اور خاص طور پر پنجاب بھر میں انگریزوں کیخلاف نفرت میں زبردست اضافہ ہوا اور اس کے اثرات نوجوان بھگت سنگھ پر بھی مرتب ہوئے۔
بھگت سنگھ کے گھرانے میں انقلابی آوازیں تو ہر وقت سنائی دیتی تھیں۔ دادا ارجن سنگھ کے تین بیٹے تھے۔ چاچا اجیت سنگھ، لالہ لاجپت رائے کے ساتھ ایک بار کالا پانی کی سزا کاٹ چکے تھے۔ انہی لالہ لاچپت رائے کی انگریز سرکار کے ہاتھوں لاہور میں موت کابدلہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے چکایا تھا۔ چچا اجیت سنگھ تو ہندوستان کے علاوہ بھی انگریز سامراج کے خلاف تحریکوں کا حصہ رہے تھے۔ بابا کشن سنگھ بھی کئی بار جیل جا چکے تھے اور چچا سورن سنگھ کا بھگت سے ایک اور ہی تعلق تھا۔ کہتے ہیں جس وقت انگریز سرکار کے بدترین تشدد کی وجہ سے سورن سنگھ کی موت ہوئی، اسی وقت بھگت سنگھ نے لائلپور کے اس گمنام سے گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔
سکول سے کالج تک کا سفر طے کرتے کرتے بھگت سنگھ نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ نیشنل کالج لاہور کی لائبریری میں جتنی سرخ کتابیں موجود تھیں، بھگت نے سب پڑھ ڈالی تھیں۔ یہ انقلاب کا زمانہ تھا۔ دنیا نے عالمی جنگ تازہ تازہ دیکھی تھی اور سارے ہندوستان میں قوم قوم ہو رہی تھی۔
بھگت سنگھ نے بہت کم عمری میں ہی کئی ترقی پسند تنظیموں اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کی رکنیت حاصل کر لی۔ جن میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ریپبلکن ایسوسی ایشن، کرتی کرشن پارٹی، نوجوان بھارت سبھا، برٹش سماج مخالف وغیرہ شامل ہیں۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی بھارت سبھا کا حصہ بن گئے۔ گریجویشن کے زمانہ میں بھگت سنگھ ہندوستان ریپبلکن پارٹی میں شامل ہو گئے، جوسامراج مخالف انقلابی پارٹی تھی۔ اس پر بنگال کے انقلابیوں کا اثر تھا اور اس پارٹی کا بعد میں نام ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی رکھ دیا گیا۔
بھگت سنگھ نے اس دوران پنجابی میں شائع ہونے والے اخبارات ’کیرتی‘اور ہندی اخبار ’ارجن‘میں اپنے خیالات اور نظریات کا اظہارکرنا شروع کر دیا۔ ان کی سامراج دشمن تحریریں انگریز سرکار کو نہیں بھاتی تھیں۔ اسی دوران وہ بم دھماکے میں گرفتار ہوئے اورپانچ ماہ کی جیل کاٹنے کے بعد ساٹھ روپے کے ضمانتی بانڈ کے عوض ضمانت ہوئی۔
بھگت سنگھ کے ساتھیوں کی انقلابی جدوجہد میں اہم موڑ اس وقت آیا جب 1928ء میں سائمن کمیشن ہندوستان آیا تو لاہور اسٹیشن پر اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں لالہ لاجپت رائے بھی شامل تھے۔ لالہ لاجپت رائے کو لاہور میں ٹریڈ یونین تحریک کا بانی مانا جاتا ہے۔ انکی والدہ کے نام پر آج بھی لاہور کا مشہور ہسپتال گلاب دیوی سینکڑوں مریضوں کو روزانہ علاج کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
پولیس نے پہلے تو ہجوم کو پرامن طریقے سے منتشر کرنے کی کوشش کی مگر پھر سپرنٹنڈنٹ سکاٹ کے کہنے پہ لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ لاٹھیاں لالہ لاجپت رائے کو بھی لگیں اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ چند دنوں بعد فوت ہو گئے۔ لالہ لاجپت رائے کے قتل کے ضمن میں سپرنٹنڈنٹ سکاٹ کا نام لیا جانے لگا۔
دسمبر 1928ء کی 17 تاریخ کو لاہور میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سانڈرس کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اسی رات لاہور کے در و دیواروں پر ایک پوسٹر چسپاں ہوا، جس میں ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی نے اس قتل کو لالہ لاجپت رائے کے قتل کا بدلہ قرار دیا۔
اس قتل کا منصوبہ بھگت سنگھ، راج گرو اور چندر شیکھر آزاد نے مل کر بنایا تھا اور گولی کا اصل نشانہ سپرنٹنڈنٹ سکاٹ تھا، مگر عین وقت پہ سکاٹ کی جگہ سانڈرس ہیڈ کوارٹر سے نکل آیا اور اسے گولی مار دی گئی۔ بھگت سنگھ اور ساتھی لاہورسے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
4 ماہ بعد 8 اپریل کو دہلی کے اسمبلی چیمبر میں بدیسی لباس میں ملبوس دو نوجوان داخل ہوئے۔ جب اسمبلی کی کاروائی اپنے عروج پر تھی، انہوں نے خالی بنچوں کی طرف دو بم پھینکے۔ ان بموں سے ہال میں دھماکہ تو ہوا مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دھماکہ کے بعدبم پھینکنے والے نوجوان ’انقلاب زندہ باد‘، ’انگریز راج مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے نیچے آ گئے۔ جلد ہی پولیس موقع پہ آ گئی۔ بھگت سنگھ اوربٹوکیشور دت نے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔
7 مئی کو ان کے خلاف مقدمے کی ابتدا ہوئی۔ ادھر یہ مقدمہ چلنا شروع ہوا اور ادھر بھگت سنگھ نے آزادی کا پیغام عام کرنے کے لئے عدالت کے کٹہرے کو منتخب کیا۔ تھوڑے ہی دن میں عدالت میں ادا ہونے والا ایک ایک لفظ شام سے پہلے ہندوستان کے کونے کونے تک پہنچ جاتا۔
مزید بدنامی سے بچنے کے لئے جلد ہی ان دونوں کو 14 سال کی قید سنا دی گئی۔ اسی دوران چند اور شواہد ملے اور گرفتاریاں ہوئیں،جن کے بعد بھگت سنگھ کا تعلق سانڈرس کے قتل کیس سے جوڑنا ممکن ہو گیا۔ لہٰذا 14 سال کی سزا کالعدم ہوئی اور قتل کامقدمہ شروع ہو گیا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران بھگت سنگھ کو میانوالی جیل منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے ہندوستانی اور انگریز قیدیوں کے درمیان امتیازی سلوک دیکھا۔ ان کا موقف تھا کہ سیاسی قیدی خواہ وہ ہندوستانی ہو یا انگریز ایک جیسے برتاؤ کا حقدار ہے اور اس کیساتھ اخلاقی مجرموں والا برتاؤ نہ کیا جائے۔
جب جیل حکام نے بھگت سنگھ کی بات نہ مانی تو انہوں نے بھوک ہڑتال کر دی۔ انگریزوں نے بہت کوشش کی مگر ان کا ارادہ نہ ٹوٹ سکا۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ بھگت سنگھ ہندوستان بھر میں مشہور ہوتے جا رہے تھے۔
جب معاملہ شدت اختیار کر گیا تو اس مقدمے کو وقت سے پہلے شروع کیا گیا اور اب سانڈرس کے قتل کے علاوہ سکاٹ کے قتل کی منصوبہ بندی اور شاہ برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ بھی بھگت سنگھ کے ذمے تھا۔ بھگت سنگھ کی بھوک ہڑتال جاری تھی اور اسی حالت میں انہیں لاہور کی بورسٹل جیل میں لایا گیا۔
5 اکتوبر 1929ء کو بھگت سنگھ نے کانگریس کی قرارداد اور اپنے باپ کے حکم پہ 114 دن کی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔
عام عدالتی کاروائی کی طوالت سے بچنے کیلئے ایک خصوصی ٹریبونل بنایا گیا، جس نے قانون کے تمام تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے 7 اکتوبر 1930ء کو تین سو صفحات پہ مشتمل فیصلے میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھدیو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔
برطانوی اہلکار کے قتل کیس میں بھگت سنگھ اور ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے 23 مارچ 1931ء کے دن صرف 23 سال کی عمر میں بھگت سنگھ کو ساتھیوں کے ہمراہ لاہور میں شادمان چوک کے مقام پر پھانسی دے دی گئی۔
اس نوجوان انقلابی کوانگریز سامراج سے آزادی کی کوششوں کے دوران کئی بار گرفتار کیا گیا لیکن وہ کسی بھی قیمت پر اپنے نظریات کو بدلنے سے انکاری تھا۔
انگریز حکومت نے بھگت سنگھ کو تحریک آزادی ختم کرنے کے عوض راجباہ پاؤلیانی جڑانوالہ کے تمام چکوک کی زمین دینے کی پیشکش کی تھی مگر بھگت سنگھ نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیاکہ ’زمین ہماری ہے تم کون ہو جو ہمیں دیتے ہو۔ تم برصغیر کو چھوڑ دو۔ میری جدوجہد لوگوں کے حقوق اور دھرتی کی آزادی کے لیے ہے اپنے مفاد کے لیے نہیں۔‘
وہ کوئی شاہ محمود قریشی یا عابدہ حسین کے بزرگوں جیسا تو نہ تھا، جنہوں نے اس وقعہ سے 75 سال قبل 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز سامراج کا ساتھ دینے کی غداری کے عوض لائلپور کے قریبی ضلع جھنگ اور ملتان میں ہزاروں ایکڑ اراضی حاصل کر لی تھی۔ اگر بھگت سنگھ نے بھی غداری کی ہوتی تو وہ بھی لائلپور کا ایک جاگیردار بن جاتا، مگر وہ تو اسی علاقہ کے دلا بھٹی کانظریاتی پیروکار تھا۔ جو سامراج سے لڑتا پھانسی چڑھ گیا۔
بھگت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے سماجی نظام کا قیام ہے، جس میں پرولتاریہ (عام لوگوں) کا اقتدارتسلیم ہو اور ایک عالمگیر فیڈریشن کے ذریعے نسل انسانی سرمایہ داری، مصائب اور سامراجی جنگوں کی غلامی سے آزادی پا لے۔‘
ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کے بارے بھگت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’ہمیں آزادی نہیں چاہیے! ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے، جہاں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لے۔ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے، جس میں غلامی اور استحصال پر مبنی یہ بوسیدہ نظام قائم رہے۔ ہماری لڑائی ایسی آزادی کے لیے ہے جواس ظالمانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بدل کر رکھ دے۔‘
بھارت میں حسینی والا کے جس مقام پر ان تینوں کا انتم سنسکار کیا گیا اب وہاں شہیدی میلہ لگتا ہے۔
بھارت میں بھگت سنگھ کی آبائی تحصیل کا نام بدل کر شہید بھگت سنگھ نگر رکھ دیا گیا ہے، راج گرو کے گاؤں کا نام بھی راجگرو نگر ہے اور سکھ دیو کے نام سے بھی ایک ٹرسٹ لدھیانہ میں کام کرتا ہے۔
لاہور میں جس جگہ اب شادمان کا فوارہ چوک ہے، قریب قریب اسی جگہ بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔
ہم نے ماضی میں یہ مہم چلائی تھی کہ اس چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھ دیں۔ پہلے تو حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا، پھر جب اس مطالبہ نے زور پکڑا تو لاہور کارپوریشن نے اس کا نام بھگت سنگھ چوک رکھنے کی منظوری دے دی۔ تاہم مذہبی جنونی قوتوں کااصرار تھا کہ اس چوک کا نام چوہدری رحمت علی چوک رکھ دیں۔ چوہدری رحمت علی کا اس چوک سے کوئی رشتہ ناطہ بھی نہیں ہے۔ یہ مذہبی قوتیں لاہورہائی کورٹ چلی گئیں کہ یہ تو غلط ہوا ہے، جس پر سٹے آرڈر دے دیا گیا جو آج بھی چل رہا ہے۔
ہم آج 2023ء میں ایک بار پھر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ:
1۔ آزادی کے اس ہیرو کے نام پر اس چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھا جائے۔
2۔ بھگت سنگھ کی جدوجہد کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کی نصابی کتابوں میں بھگت سنگھ سمیت آزادی کے بیشتر غیر مسلم ہیروز کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے، بھگت سنگھ مذہبی نوجوان نہیں تھا۔ وہ ایک انقلابی نوجوان تھا۔ مذہبی بنیادوں پراس کی انگریز سامراج کے خلاف برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کی مخالفت کرنا درست نہیں ہے۔
3۔ بھگت سنگھ بہادری کی ایک درخشان مثال تھا۔ بھگت سنگھ آزادی کا ہیرو ہے، اور اسے پاکستانی حکومت سرکاری طور پر قومی ہیرو تسلیم کرے۔
جب بھگت سنگھ کو پھانسی کے گھاٹ کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ تو وہ انقلابی نعرے لگا رہا تھاکہ:
’Up Up Red Flag, Down Down Union Jac‘ اسی نعرہ سے انقلابی ہمت لیتے ہوئے لاہور کے انقلابی نوجوانوں نے 2019ء میں جو نعرہ لگایا تھا وہ آج پورے پاکستان میں گونج رہاہے۔
’جب لال لال لہرائے گا، تو ہوش ٹھکانے آئے گا‘