لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارتی ایڈیٹرز نے حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر خبروں کی جانچ پڑتال کرنے کیلئے پولیس کا یونٹ قائم کرنے کے اقدام پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایڈیٹرز نے نئے قوانین کو سخت اور سنسرشپ کے مترادف قرار دیا ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق ملک کے آئی ٹی قوانین میں ترامیم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حکومت کے بارے میں مبینہ جعلی، جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کو شائع، شیئر یا پیش کرنے پر پابندی عائد کرتی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی انتظامیہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ بار بار جھگڑوں کا شکار رہی ہے۔ ان پلیٹ فارمز کو مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں کچھ مواد یا اکاؤنٹس کو ہٹانے پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔
بھارتی حکومت نے جمعرات کو اعلان کیا کہ وہ جعلی، غلط یا گمراہ کن معلومات کی شناخت کیلئے فیکٹ چیک یونٹ تقرر کرے گی، تاہم ایڈیٹرز گلڈ یونٹ کے گورننگ میکنزم، جعلی خبروں کے تعین میں اس کے وسیع اختیارات اور ایسے معاملات میں اپیل کرنے کے حق پر سوال اٹھاتا ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ سب کچھ قدرتی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے اور سنسرشپ کے مترادف ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح کے سخت قوانین کے بارے میں وزارت کا نوٹیفکیشن افسوسناک ہے۔ گلڈ ایک بار پھر وزارت پر زور دیتا ہے کہ وہ اس نوٹیفکیشن کو واپس لے اور میڈیا تنظیموں اور پریس باڈیز سے مشاورت کرے۔‘
تاہم حکومت نے کہا ہے کہ قواعد سخت نہیں ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ ترمیم میں ’جعلی‘، ’غلط‘ اور ’گمراہ کن‘ جیسی غیر متعینہ اصطلاحات حکام کی جانب سے غلط استعمال کی گنجائش میں اضافہ کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ مودی حکومت کی فسطائی پالیسیوں کی وجہ سے روایتی میڈیا پر سنسرشپ کو سخت کیا گیا ہے۔ گزشتہ عرصہ میں مین سٹریم میڈیا کے علاوہ ریجنل میڈیا اداروں میں بھی اس سنسرشپ کو سختی سے نافذ کیا گیا ہے۔ حکومت مخالف آوازوں کو میڈیا انڈسٹری سے نکال باہر کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ جموں کشمیر جیسے متنازعہ علاقوں میں صحافیوں کو این آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے ذریعے جعلی اور فرضی مقدمات میں پابندسلاسل کر کے آوازوں کو دبانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
تاہم حکومت لمبے عرصہ سے سوشل میڈیا پر اختلافی آوازوں کو مکمل طور پر دبانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سنسرشپ بڑھائے جانے کے باوجود کسی حد تک اختلاف رائے کی گنجائش موجود تھی۔ ٹویٹر نے مودی حکومت کی سنسرشپ کی پالیسیوں کو اپنانے سے انکار بھی کیا ہے۔ اب حکومت کی جانب سے قانون بنا کر سوشل میڈیا پر اختلافی آوازوں کے خلاف قانونی کارروائی کی راہ ہموارہ کر لی ہے۔