خبریں/تبصرے

پی ٹی آئی حکومت میں جبری گمشدگیاں بڑھ گئیں: گارڈین

لاہور (نامہ نگار) خبررساں ادارے ’دی گارڈین‘ میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیاں کے مطابق 1980ءسے 2019ءکے درمیان پاکستان سے جبری گمشدگیوں کے 1144 مقدمات درج ہوئے جن میں سے 731 تاحال لاپتہ ہیں، تاہم زیادہ تر معاملات اقوام متحدہ تک پہنچے ہی نہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (بی بی ایم پی) کے مطابق بلوچستان سے اب تک 6000 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔ 2009ءکے بعد سکیورٹی فورسز کی طرف سے اغوا کئے گئے 1400 افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران بلوچستان میں باغیوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ گمشدگیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جنوری 2020ءاور اگست کے درمیان 139 افراد کو بلوچستان سے اغوا کیا گیا جن میں سے صرف 84 افراد کو رہا کیا گیا۔

ترجمان بلوچستان حکومت نے ’گارڈین ‘سے گفتگو کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ”اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے حل کر رہے ہیں، تقریباً 4000 افراد کو رہا کیا گیا ہے۔“

رپورٹ کے مطابق سندھ میں حال ہی میں متعدد قوم پرست تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ سندھ کی وائس فار مسنگ پرسنز نامی تنظیم کے مطابق 152 افراد لاپتہ ہیں، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکنان شامل ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے اسد بٹ نے بتایا کہ مرکزی شہر کراچی میں 250 کے قریب لاپتہ ہونے والے افراد تاحال واپس نہیں مل سکے۔ سندھ کے لاپتہ ہونے والے ایک درجن کے قریب سیاسی کارکنوں کے رشتہ دار انصاف کے مطالبے کےلئے کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد تک 1500 میل لمبا مارچ کر رہے ہیں جس میں تین مہینے کا وقت لگے گا۔

جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پاکستان کے وفاق کے سابق زیر انتظام قبائلی علاقہ (فاٹا) سر فہرست ہے۔ یہ علاقہ ملکی اور غیر ملکی فوجی کارروائیوں اور دہشتگردوں کا دیرینہ مرکز رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2007-08ءمیں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد فاٹا سے تقریباً 8 ہزار افراد کو اغوا کیا گیا تھا جن میں سے صرف 1500 افراد کو رہا کیا گیا ہے۔ اس خطے میں جبری گمشدگیوں کے مسئلہ کو اجاگر کرنے والے سیاسی کارکن منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ”گمشدگیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، اس معاملے کے مجرموں کو سزا دیئے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا، وہ جانتے ہیں کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔“

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ 1970ءکی دہائی مین شروع ہوا لیکن
2001ءکے بعد پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں خاص طور پر آئی ایس آئی نے اس طریقہ کو اس وقت اہم ہتھیار بنا لیا جب پاکستان دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت القاعدہ کے سیکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو امریکی انتظامیہ کے لئے اغوا کر کے خفیہ طور پر گوانتا ناموبے جیل بھیجا گیا۔

انسانی حقوق کے کارکنان خفیہ ادارے پر ’ریاست کے اندر ریاست ‘چلانے کا الزام عائد کرتے ہیں ۔ اس ادارے کی 10 ہزار سے زائد افراد قوت میں زیادہ تر خدمات انجام دینے والے فوجی افسران ہیں۔ اغوا کا شکار بننے والے مشتبہ اسلامی یا علیحدگی پسند عسکریت پسند ہیں لیکن سیاسی مخالفین، کارکنان، طلبہ، سیاستدان، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی اور وکلا کو بھی بغیر کسی قانونی عمل کے اغوا کیا جانا معمول ہے۔ تاہم پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں باقاعدگی سے گمشدگیوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے بار ہا جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب وہ وزیراعظم بنے تو بھی یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ بڑھتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے اس ریکارڈ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنےکی شرط پر یہ کہا کہ ”یہ کہنا غلط ہے کہ یہ لوگ غائب ہو گئے تھے، یہ وہ لوگ ہیں جو سرحدی چوکیوں پر حملے کرتے ہیں یا افغانستان اور سرحدی علاقوں میں مارے جاتے ہیں، یا وہ لوگ ہیں جو باغی اور دہشت گردی ہیں جنہیں جیل میں ڈالا گیا ہے، یا وہ ہیں جو یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن بننے کےلئے بھاگ گئے اور راستے میں ہی ہلاک ہو گئے۔ سیاستدان لوگوں کے جذبات کا ابھارنے کےلئے اس معاملے کو ابھارتے ہیں۔“

رپورٹ کے مطابق اس معاملے سے نمٹنے کےلئے ریاستی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ 2006ءمیں سپریم کورٹ نے لا پتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت شروع کی لیکن اس وقت کے حکمران پرویز مشرف نے ایک سال کےلئے ہنگامی صورتحال کا اعلان کر کے تمام ججوں کو معزول کر دیا۔ 2011ءمیں لاپتہ افراد سے متعلق انکوائری کمیشن قائم ہوا لیکن وہ بھی کسی کو ذمہ دار قرار دینے میں ناکام رہا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts