مظہر آزاد
چین کے صوبہ سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کی علیحدگی پسند تحریک اور ان پر چینی حکومت کی پابندیوں اور ظلم کو چین مخالف حلقوں جیسا کہ امریکہ اور یورپ میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔
اس سوال پر عوامی جمہوریہ چین کو کافی تشویش ہے۔ چین بار بار ایسی باتوں کی تردید کرتا ہے اور اِس کو چین اور اشتراکیت کیخلاف مغرب اور سرمایہ دارانہ نظام کا پروپیگنڈہ قرار دیتا ہے۔
مغرب کے اس پراپیگنڈے کے ردعمل میں چینی حکومت مختلف قسم کے اقدامات کرتی رہتی ہے۔ قرین قیاس ہے: چین نہیں چاہے گاکہ جس طرح سوویت روس کے اشتراکی نظام کے خلاف مغرب نے مذہبی پراپیگنڈہ کیا تھا اور روس کو افغانستان میں مذہب اسلام کی مدد سے شکست دی تھی، کچھ ایسا چینی اشتراکیت کے خلاف بھی ہو۔ اس حوالے سے مسلم دنیا کے کئی مذہبی شخصیات کو چین کاؤنٹر پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتا رہتاہے۔
کچھ اِس طرح مولانا فضل الرحمن بھی استعمال ہوئے ہیں۔ انہوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریب میں مہمان کے طور پر شرکت اور تقریر کی۔
مولانا فضل الرحمن کی شرکت چین کے اوپر بیان کی گئی پالیسی کی ایک مثال ہے اور اس نظریاتی زوال پذیری اور تاریخی منافقت کا واضح ثبوت ہے کہ روسی کمیونزم کوکفر قرار دینے والے، اس کے خلاف امریکی جنگ کو جہاد قرار دینے، اس جنگ میں شرکت کرنے اور کمیونزم کو شکست دینے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ایک اور کمیونسٹ ملک (چین) کی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات منا رہے ہیں اور کمیونزم کی تعریفیں کر رہے ہیں۔
دوسری طرف یہ اِن کی اپنے جماعت کے ان لوگوں کے ساتھ بھی نظریاتی اور اخلاقی غداری ہے جن کو افغانستان کے فساد میں انہوں نے ڈالروں کی خاطر مروایا۔
افغان اور افغانستان کے تو یہ مولوی حضرات پرانے دشمن ہیں۔ آج جب پاکستانی اشرافیہ کے مفادات چین سے وابستہ ہیں تو مولویوں سمیت سب چین کے گن گا رہے ہیں۔ شائد ولی خان نے ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا کہ یہ لو گ روس کو ملحد کہتے ہیں اور افغان فساد کو جہاد قرار دیتے ہیں لیکن چین والوں کے لئے دختران پاکستان سڑکوں پر نچواتے ہیں۔
منافقت کی انتہا دیکھئے کہ مولانا فضل الرحمن نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی تقریب سے خطاب میں ایغور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو نظر انداز کر دیا۔ شائد ’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ کانعرہ بھی چینی مسلمانوں پر نافذ نہیں ہوتا۔ یہ کیسا مسلم بھائی چارہ ہے کہ فلسطین اور کشمیرکے مسلمان تو مولانا کو نظر آتے ہیں لیکن ایغور مسلمانوں پر وہ خاموش ہیں۔
اور تو اور مولانا نے چین کو سپر پاور قرار دیا اور چین سے مطالبہ کیا کہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے چین مسئلہ فلسطین اور کشمیر کا حل پیش کرے۔
سیاسی مولویوں کے ہاتھ میں مذہب کوئی مقدس چیز نہیں بلکہ اپنے مفاد کیلئے استعمال ہونے والا ایک مدافعاتی نظام ہے۔