لاہور (جدوجہد رپورٹ) سمیع اللہ جہیش افغانستان میں صحافی تھے جو طالبان کے غیر انسانی سلوک سے جان بچاکر پاکستان پہنچے تھے۔ یہاں ڈیڑھ سال تک بے روزگار رہنے کے بعد ایک موقع پر انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اپنے گردے بیچ کرخاندان کی کفالت کریں گے۔ خوش قسمتی سے ایک گرانٹ کے ذریعے انہیں مدد حاصل ہو گئی۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹز (CPJ) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ سو کے قریب افغان صحافی موجود ہیں جو اقوام متحدہ کے ایک پروگرام کے تحت دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ یہ صحافی مختلف اخبارات اور ریڈیو، ٹی وی میں کام کر رہے تھے اور طالبان کی حکومت آنے کے بعد جان بچا کر سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
پاکستان اقوام متحدہ مہاجرین کنونشن کاحصہ نہیں ہے جس کے تحت انہیں واپس بھجوانے پر پابندی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ افغان مہاجرین کو تیس دن کا عارضی ویزہ دیا جائے گا مگر اطلاعات کے مطابق شناختی دستاویزات کے بغیریہاں رہنے والے افغان باشندوں پراب سختی کی جا رہی ہے۔ مارچ میں ایک ہزار سے زیادہ افغان شہریوں کو واپس اپنے ملک بھجوادیا گیا تھا۔ اس صورت حال میں افغان صحافیوں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد یہاں روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سی پی جے کو بتا یا کہ وہ اپنے بچوں کو پاکستان میں تعلیم نہیں دلا سکتے: ”افغانستان سے نکلتے وقت ان کے پاس بہت کم رقم تھی جو اب ختم ہوچکی ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ ان کے بچوں اور خاندان کا کیا مستقبل ہے۔“
افغانستان میں خواتین صحافی طالبان کی مزید پابندیوں کا شکارہیں۔ خاطرہ احمدی بھی ایسی ہی صحافی ہیں جو افغانستان میں ٹی وی اینکرتھیں۔ طالبان کی جانب سے آئے دن کی دھمکیوں سے تنگ آ کر وہ اپنے صحافی شوہر کے ساتھ پچھلے سال مئی میں پاکستان آ گئی تھیں۔ خاطرہ کا کہنا ہے ”میں کہیں اور نہیں جا سکتی، میرے رشتہ دار افغانستان سے مجھے پیسے نہیں بھجوا سکتے، میں یہاں مکان کرایے پر نہیں لے سکتی۔ ہم یہاں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔“
پاکستان میں مقیم یہ صحافی اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان نہیں جاسکتے اور انہیں نہیں معلوم کہ کسی تیسرے ملک نقل مکانی کی اجازت کب ملے گی۔ پاکستان سمیت کئی ملکوں، اقوام متحدہ اور طالبان کے غیر انسانی سلوک کے درمیان گھرے ہوئے یہ لوگ شدید مالی پریشانیوں میں گرفتار ہیں اور فوری توجہ کے مستحق ہیں۔