تاریخ

لال خان: کچھ یادیں، کچھ باتیں

رانا سکندر (پال سیٹھ)

21 فروری 2020ء کو میرا کامریڈ اور زندگی بھر کا دوست، دنیا جسے لال خان کے نام سے جانتی تھی، جسمانی طور پر ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ لال خان ایک غیر معمولی انسان تھا جس نے ایک انتہائی غیر معمولی زندگی گزاری۔ لیکن ’طبقاتی جدوجہد‘ کی تاریخ ہی بڑی حد تک لال خان کی زندگی کا بھی احاطہ کرتی ہے۔

انقلابی تنظیم کی تعمیر کا یہ سفر آسان قطعاً نہ تھا۔ کئی کٹھنائیاں تھیں۔ دھوکے اور غداریاں بھی ہوئیں۔ جو اس سفر کا لازمی جزو ہوتی ہیں۔ لیکن لال خان ہمیشہ ثابت قدم رہے، انقلابی تنظیم تعمیر کرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ نوجوان طالبعلم کی حیثیت سے وہ دنیا کی جابر ترین آمریتوں میں سے ایک سے ٹکرا گئے۔ اس مزاحمت کی پاداش میں ان کو پاکستان میں دیکھتے ہی گولی مارنے کے آرڈر جاری ہو گئے۔ لیکن پھر جلا وطنی میں بھی ان کی انقلابی تڑپ اور جستجو ماند نہ پڑی۔ بلکہ وہاں ان کو اپنی جدوجہد کی نظریاتی بنیادوں کو مزید وسعت فراہم کرنے کے ایسے مواقع میسر آئے جس نے ڈاکٹر لال خان کو ایک اٹل اور پیشہ ور انقلابی میں ڈھال دیا اور پھر آخری سانس تک وہ اسی عمل سے وابستہ رہے۔

میری لال خان سے پہلی ملاقات برطانیہ میں ڈوور کے ساحل پر ہوئی تھی۔ وہاں ضیا آمریت میں ملک سے جلا وطن ساتھیوں نے ایک کنفیڈریشن کے قیام سے متعلق سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔ ممتاز بھٹو اور عطااللہ مینگل کے ہمراہ ڈاکٹر لال خان بھی اس نشست کے مہمان تھے۔ میں، ڈاکٹر غلام حسین، شیخ منیر اور کچھ دیگر ساتھی اس تقریب میں شرکت کے لیے جرمنی سے لندن گئے تھے۔ میری لال خان سے پہلی بالمشافہ ملاقات اس اجلاس کے سلسلے میں ضرور ہوئی لیکن میں لال خان کو تب سے جانتا تھا جب ابھی وہ ملتان میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتے تھے۔ خاص طور نشتر میڈیکل کالج میں پاکستان میں بھٹو کے واحد غائبانہ نماز جنازہ کے انعقاد کی وجہ سے یثرب تنویر گوندل پورے پاکستان کے ترقی پسند حلقوں میں کوئی اجنبی نام نہ تھا۔ ڈوور کے ساحل پر میرے ساتھ ڈاکٹر غلام حسین نے تنویر گوندل کو پہچانا۔ ساحل کے کنارے سے میں نے انہیں آواز دی اور پھر یہ ساتھ ہمیشہ قائم رہا۔

اس اجلاس کے بعد میرے لیے جرمنی کہیں پیچھے ہی رہ گیا۔ یہ طے ہوا کہ ایمسٹرڈیم میں ’جدوجہد‘ کی بنیادیں تعمیر کی جائیں۔ اس سلسلے میں ایمسٹرڈیم کے مرکزی ڈام اسکوائر میں پہلے دفتر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ایک طویل عرصے تک اس دفتر سے انقلابی کام منظم ہوتا رہا۔ ابتدائی شکل میں ’طبقاتی جدوجہد‘ کی اشاعت کا آغاز بھی اسی دفتر سے ہوا۔

انہی دنوں کی بات ہے جب ایمسٹرڈیم میں پاکستان کی ہاکی ٹیم ایک میچ کھیل رہی تھی۔ ان وقتوں میں پاکستان میں صرف پاکستان ٹیلیوژن (پی ٹی وی) ہی چلتا تھا اور ہاکی مقبول ترین کھیل ہونے کی وجہ سے ایسے میچ براہِ راست دکھائے جاتے تھے۔ چنانچہ اس میچ کو انقلابی پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ایمسٹرڈیم میں جلاوطن ساتھیوں نے ضیا آمریت کے خلاف بینر سٹیڈیم میں لہرا دئیے۔ وہاں کیمرہ مینوں کو بینرز پر لکھی اردو عبارت سمجھ بھی نہ آئی جس کی وجہ سے وہ براہِ راست نشر بھی ہو گئے۔ یہ کلپ کچھ وقت کے لیے پی ٹی وی پر بھی چلتا رہا۔ جس کے بعد ٹی وی سکرینوں پر ”مواصلاتی سیارے میں خرابی کے سبب نشریات کی بندش“ کا پیغام آ گیا۔

پاکستان میں خونی ضیا آمریت کے دوران محنت کشوں کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی گئی۔ بہرحال حالات میں کچھ تبدیلی کے نتیجے میں انقلابی کام کسی قدر ممکن ہوا تو تنظیمی فیصلے کے تحت میں اور کچھ اور ساتھی 1986ء میں واپس پاکستان آئے۔ شروعاتی دنوں میں لائل پور میں رہے۔ پھر بعد میں لال خان بھی آ گئے اور ہم نے لاہور میں مرکز کی تعمیر کا کام شروع کیا۔
یہ ہمارے لیے قحط الرجال کا دور تھا۔ لاہور ہمارے لیے بالکل اجنبی شہر تھا۔ کسی سے شناسائی نہ تھی۔ ’چھڑے‘ نوجوانوں کو تب بھی ٹھکانہ بڑی مشکل سے نصیب ہوتا تھا۔ ملتان روڈ پر پیکو پرنٹنگ پریس کے پاس سوڈی وال سٹاپ پر بالآخر ایک خستہ حال نشیمن ہمیں مل گیا۔ جس کے حالات ایسے تھے کہ اگر غلطی سے ہوا چل جائے تو گلی کا سارا کوڑا اس گھر میں جمع ہو جایا کرتا تھا۔ انہی گلیوں سے ہمیں کئی انقلابی ساتھی ملے جو آخری سانس تک جڑے رہے۔

80ء کی دہائی کے اواخر میں بھی حالات کٹھن ہی تھے۔ یہ ابھی تک ایک مشکل وقت تھا۔ ہماری مالی حالت بھی بہت پتلی تھی۔ سگریٹ تک پینے کے پیسے نہ ہوا کرتے تھے۔ ضیا آمریت سے تو جان چھوٹی لیکن ساتھ ہی سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سٹالنزم بھی ٹوٹ کے بکھر رہا تھا۔ پھر بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی بھی اپنے بنیادی سوشلسٹ نظریات سے انحراف اور مصالحت کی روش پر گامزن ہو گئی۔ ایک طرف سوشلزم کے خلاف سامراجی و ریاستی پراپیگنڈہ کی یلغار تھی تو دوسری طرف سٹالنسٹ بایاں بازو سوویت یونین کی زوال پذیری کو سمجھنے اور اس عمل کی سائنسی وضاحت دینے سے قاصر تھا۔

”سوشلزم کی ناکامی“ کے شور و غل کے اسی مشکل عرصے میں تنظیم کا پہلا باقاعدہ دفتر پرانی انار کلی سے وابستہ گن پت روڈ پر واقع نور چیمبرز کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں قائم ہوا۔ اس دفتر کی سیڑھیاں چڑھنا سیاسی اعتبار سے بہت جرات کا متقاضی فعل تھا کیونکہ یہاں نظر آنا‘ ریاست کی ”نظر“ میں آنے کے مترداف تھا۔ یہیں سے ہم نے کام کا آغاز ماہانہ بنیادوں پر کتابی سلسلوں کی اشاعت سے کیا۔ اخراجات کی بچت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا۔ اُس وقت پاکستان میں پیپر پوسٹ پر کم و بیش ایک روپے کی ٹکٹ لگتی تھی۔ بعد ازاں ہم نے پرچے کی وی پی (جس میں رقم کی ادائیگی وصول کنندہ نے ادا کرنی ہوتی ہے) بھیجنے کا عمل شروع کیا جس سے ہمیں پاکستان بھر میں سنجیدہ روابط میسر آئے۔ ممتاز بھٹو، ملیحہ لودھی، فرزانہ باری اور منو بھائی سمیت ایسے بے شمار لوگ تھے جن کی جانب سے کبھی بھی وی پی واپس مڑ کر نہ آئی۔ پرچے کی بنیاد پر ملک کے طول و عرض میں روابط کا جال بننا شروع ہوا۔ خط و کتابت کے ذریعے یہ رابطے مضبوط بنائے گئے۔ اور پھر اسی کے گرد تنظیم کا شروعاتی ڈھانچہ وجود میں آنے لگا۔

گن پت روڈ کے بعد گڑھی شاہو میں سکیم نمبر 1، محلہ نمبر 1، گلی نمبر 1 میں دفتر لیا۔ یہیں سے پھر ہم نے کامریڈ شاہدہ جبیں کا الیکشن لڑا۔ الیکشن مہم میں ہم سٹریٹ تھیٹر بھی کیا کرتے تھے۔ ان وقتوں میں ہمارے تھیٹر ”سماج کو بدل ڈالو“ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔

یہ حیرت انگیز تھا کہ چند نوجوان اپنی زندگی، کیرئیر، آسائشیں سب کچھ پس پشت ڈالتے ہوئے خستہ حال انفراسٹرکچر کے حامل اس ملک کی بوسیدہ بسوں اور ٹرینوں میں کئی دنوں پر محیط سینکڑوں میل کے سفر کر کے روابط سے ملنے جاتے، انقلابی سوشلزم کے نظریات کا پرچار کرتے اور نئے لوگوں کو انقلابی تنظیم کی لڑی میں پروتے جاتے۔

پیپلز پارٹی میں بھی کام انقلابی شناخت کے ساتھ ہی منظم کیا اور بہت ساری حاصلات بھی لیں۔ فی الوقت آج کی پیپلز پارٹی کی قیادت کی مصالحتی‘ بلکہ انتہائی رجعتی روش ہمارا موضوع بحث نہیں۔ اس موضوع پر خود کامریڈ لال خان کے نہ صرف سینکڑوں مضامین موجود ہیں بلکہ کتابیں اور تنظیمی دستاویزات بھری پڑی ہیں۔ لیکن شروعاتی دنوں میں بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کو ہمارے انقلابی ساتھی کھٹکتے ہی رہتے تھے جو ان کو پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور ’سوشلزم ہماری معیشت‘ کی یاد دہانی کرواتے تھے۔

80ء کی دہائی کے وسط میں جب بینظیر پاکستان آئی تو ”بینظیر آئی ہے…انقلاب لائی ہے“ایک مقبول ترین نعرہ بن گیا۔ لائل پور کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ جب وہاں پیپلز پارٹی کی ایک تقریب میں ہم اپنا پرچہ بیچ رہے تھے تو ایک ساتھی (غالباً کامریڈ فاروق طارق) کو پہچانتے ہوئے بینظیر نے کہا کہ تم لوگ یہاں بھی میری پارٹی کو ”تباہ“ کرنے پہنچ گئے ہو۔

اس واقعہ کا ایک پس منظرہے کہ جب پیپلز پارٹی نے لندن میں قیوم بٹ، سردار مظہر علی اور دیگر ترقی پسند ساتھیوں کو پارٹی سے نکالا تو ہم سب نے لندن کی پارٹی سٹیئرنگ کمیٹی بنا ڈالی اور قیادت پر ان ساتھیوں کو واپس لینے کا دباؤ ڈالا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب واقعہ تھا۔ پیپلز پارٹی جیسی پارٹیوں میں قیادت کے خلاف ایسے کھڑے ہونے کی روایات کم ہی ملتی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر مصالحت اور انحراف کے خلاف لڑائی لڑی۔ نہ کہ قیادت کی غداریوں کے جواز تراشے۔

چین میں منڈی کی معیشت کی بحالی اور سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سائنسی سوشلزم کے نظریات پر انقلابی پارٹی کی تعمیر کا سفر آسان نہ تھا۔ آج مکران سے لے کر خیبر اور سوات اور کشمیر سے لے کر کراچی تک پھیلے اس انقلابی رجحان کی تعمیر میں ڈاکٹر لال خان کی سخت محنت اور انتھک جدوجہد کا کلیدی کردار ہے۔

اگر غور کیا جائے تو کامریڈ لال خان اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے جنوب ایشیائی تناظر میں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات کا نچوڑ اپنے شاگردوں کے لئے چھوڑ کر گئے ہیں۔ لیکن وہ کئی غیر معمولی ذاتی خوبیوں کے بھی حامل تھے۔ وہ بے مثال شفقت، بیباکی، عاجزی، لگن اور جرات جیسی صلاحیتوں کے حامل انسان تھے۔ جنہیں مارکسزم کے نظریات پر گہرا عبور حاصل تھا۔ ان کے کام کو نکال دیا جائے تو ہمارے خطے کے سماجوں کا تجزیہ، تناظر اور انقلابی لائحہ عمل ادھورا اور ناقص رہ جائے گا۔ انہوں نے ٹراٹسکی کے غیر ہموار اور مشترک ترقی اور انقلابِ مسلسل کے نظریات کو جس طرح جنوب ایشیائی معاشروں کے تناظر میں واضح کیا‘ اس کی کوئی دوسری مثال ملنا محال ہے۔ ایک ٹھوس اور ناقابل تردید انداز سے انہوں نے واضح کیا کہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی پچھڑے ہوئے خطوں پر کھینچی گئی سامراجی لکیریں مٹا سکتا ہے اور انہیں پسماندگی اور افلاس سے نکال کر تاریخی طور پہ آگے بڑھا سکتا ہے۔

پراپیگنڈہ اور پارٹی کی تعمیر میں لینن کے طریقہ ہائے کار کو وہ نئی بلندیوں پر لے گئے۔ تنظیم سازی کے عمل کو اعلیٰ ثقافتی معیار سے روشناس کروایا۔ پاکستان جیسے معاشروں میں قومی سوال جیسے پیچیدہ مسائل پر مارکسی نقطہ نظر کو ایک نیا نکھار دیا۔ آج انقلابیوں کی نئی نسل کا فریضہ یہی ہے کہ وہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور اس نصب العین تک پہنچائیں جس کے لیے لال خان کی تمام زندگی وقف رہی۔ سچے جذبوں کی قسم‘ آخری فتح ہماری ہو گی۔ انقلاب زندہ باد!

Rana Sikandar
+ posts