فاروق سلہریا
زیر نظر تصاویر میں نے تین دن قبل راولپنڈی کے ایک ایلیٹ علاقے، اسکیم تھری، جاتے ہوئے کھینچی تھیں۔
یہ منظر ملک بھر کے شہروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ غالباً کسی ترقیاتی منصوبے کے تحت پائپ بچھائے جا رہے ہیں۔ زمین کھود کر سڑک کنارے مٹی کے ڈھیر لگا دئے گئے ہیں۔ اندھا دھند گاڑیاں چلانے والوں نے مٹی کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ آس پاس کے گھروں میں رہنے والے تو اس ترقیاتی منصوبے کی تکمیل تک یا کینسر کا شکار ہو جائیں گے یا سانس کی بیماریوں کا۔
اس سڑک یا ایسی سڑک سے گزرنے والوں کا بھی برا حال ہو جاتا ہے۔ ستر سال میں یہ ریاست اور اس کے ادارے اتنی معمولی سی بات نہیں سیکھ سکے کہ ترقیاتی کام کرتے ہوئے حفظان صحت اور شہریوں کے آرام کو مد نظر رکھا جانا چاہئے۔ بدقسمتی سے شہریوں کی تنظیمیں اور سماجی تحریکیں بھی کمزور ہیں۔ اس لئے شہریوں کی جانب سے بھی کسی منظم احتجاج کی مثال سامنے نہیں آتی۔ عمومی شعور میں بھی ایسے خافناک مسائل کو قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔
بطور شہری لوگوں کو ایسے اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کرنا چاہئے۔ ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ جب وہ کھدائی کریں یا کہیں عمارت سازی ہو رہی ہو تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اڑوس پڑوس کے لوگوں اور قریبی را ہگزر سے گزرنے والوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو یا ماحولیات کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر موجودہ روش نہ بدلی گئی تو وہ دن دور نہیں کہ پانی کی طرح آکسیجن کی بوتلیں بھی ساتھ لے کر گھر سے نکلنا پڑے گا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔