خبریں/تبصرے

بھارت اور پاکستان جنگی جنون کو فروغ دے رہے ہیں: عائشہ جلال

واشنگٹن (قیصرعباس) معروف دانشور اور تاریخ د ان ڈاکٹر عائشہ جلال نے کہا ہے کہ”انڈیا اور پاکستان‘دونوں ملکوں کے رہنما آج جنگی جنو ن کا جوما حول تشکیل دے رہے ہیں وہ جنوبی ایشیا کے مستقبل کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ دونوں ملکوں میں قومی جذبات کو ہو ادے کر سیاسی مفادات کے لئے کشمیر کے مسئلے کوپس پشت ڈالاجارہاہے جوآ ج تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزررہاہے۔ انڈیا میں ان رجحانات کے فروغ کا ذمہ دار نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی ہے جو مذہبی جنونیت کو اب سیاسی نظریے کادرجہ دے رہی ہے اور قومی جذبات کو ابھارکر پاکستان کے خلاف مہم کا آغاز کر رہی ہے“۔

ڈاکٹر عائشہ امریکہ کی ’Tufts Univeristy‘ میں شعبہ تاریخ کی پروفیسر ہیں اورواشنگٹن میں ساوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ (SDW) اور وڈر و ولسن سنٹر کے زیرِاہتمام عاصمہ جہانگیرلیکچر سیریز کی افتتاحی تقریب میں ”جنوبی ایشیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق“ کے موضوع پر خطاب کررہی تھیں۔

بھارت میں موجودہ جمہوریت کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ ”جمہوریت کا مطلب خیالات کا اظہار اور ان پر عوامی اور سیاسی سطح پرتبادلہ خیال کی فضا قائم کرنا ہے، لوگوں کوذرائع ابلاغ سے محروم کرنا اور ان کو جیلوں میں بند کرنا نہیں“۔

ان کے خیال میں ”دونوں ملکوں میں ریاستی جبر اب اس قدبڑھ چکاہے کہ آج صر ف ریاستی بیانیہ ہی میڈیا میں نظرآتاہے جس کی وجہ سے ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کاکام اب حکو متی فیصلوں پر تبصرہ نہیں ان کو من وعن تسلیم کرنا ہے اوریہ ان کا جمہوری کردارہرگزنہیں ہے“۔ کشمیریوں پرجو ظلم وستم ہورہے ہیں وہ بھار ت کے ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے کیونکہ یہ سب آمرانہ نظام کی نشانیاں ہیں۔

عاصمہ جہانگیر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ”عاصمہ جہانگیرکی کامیابی کاراز قانونی جدوجہد، سیاسی داؤ پیچ پر گہری نظر، بے باک مزاحمت اور انتھک محنت تھااور ان کے مقام تک پہنچنے کے لئے برسوں کی محنت اور قربانی کی ضرورت ہے۔ عاصمہ جہانگیر برصغیر میں امن و انصاف کی ایک جرات مند کا رکن تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ پاکستان میں لشکر شاہی کشمیر کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی رہی ہے اور دونوں ملکوں کی قیادت ا س اہم مسئلے کو حل کرنے پر تیار نہیں ہے“۔

آج دنیا میں بڑھتے ہوئے آمرانہ رجحانات اور کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ”ریاستی ناانصافیوں پر عالمی پیمانے پر ہونے والی خاموشی رہنماوں کے اپنے مفادات کی غمازہے۔ ذرائع ابلاغ اور صحافیوں پر پابندیاں اور تشدد نئے برقیاتی اور سوشل میڈیا کو قابو کرنے کی ریاستی تدبیروں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ امیگریشن اور تارکینِ وطن کے خلاف بڑھتا ہوا تعصب حب الوطنی کے کھوکھلے دعوؤں کے علاوہ کچھ اور نہیں“۔

اپنی تقریر میں انہوں نے بر صغیر کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو او ر اردو کے عظیم شاعر غالب کے حوالے دے کر کہا کہ”ان دانشوروں نے بہت پہلے عالمی رویوں اور جنگ جو ئی کے رجحانات کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ مقررہ کی نئی کتاب’ The Pity of Partition: Manto’s Life, Time and Work‘ سعادت حسن منٹو اور برصغیر کی تقسیم پر ایک عالمانہ نظر ڈالتی ہے۔

علاقے کی مشہوریونیورسٹیز کے محققین اور طلبہ و طالبات کے علاوہ بر صغیر کے دانشوروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اس تقریب میں موجود تھی۔ ایک سوال کے جواب میں مقررہ نے کہا کہ”صرف انتخابات کرانا ہی جمہوریت نہیں ہے، بھارت میں جس طرح انتخابی جمہوریت کے ذریعے قومیت کے نام پر لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور اقلیتوں کو دبایا جارہا ہے وہ جمہوری روایات کے خلاف ہے، بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی سیاسی نظام اور انتخابات پر غیر سیاسی طاقتوں کی پوری گرفت ہے جو جمہوریت کی روح کو ختم کررہی ہے“۔

ان کے مطابق جنرل ضیاالحق کے دور میں مذہبی رجعت پسندی کو ریاستی سطح پر فروغ دیا گیا اور اس کے بعد آمروں نے شدت پسند گروہوں کی سرپرستی کی اور آج ہم اسی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ”جس طرح صوبہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو ان کے اپنے محافظ نے ایک اقلیتی خاتون آسیہ بی بی کی حمایت کی بنیاد پر قتل کیا اور نہ صرف مذہبی جنونیوں بلکہ وکلا حضرات نے قاتل کی حمایت کی، وہ اسی ریاستی پالیسی کا نتیجہ تھا“۔

انڈیا کے گزشتہ انتخابات میں با ئیں بازو کی ناکامی پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ”لیفٹ کی جماعتیں ملک کے دستور کے اندر رہتے ہوئے انتخابی جمہور یت کا حصہ رہیں ہیں جبکہ دستو ر میں ریاست و مذہب کی علیحدگی کی ضمانت اب عملی طور پر بے معنی ہوچکی ہے لیکن لیفٹ دوبارہ مقبول ہوگا اور ملکی سیاست میں اپنا اہم کردار اداکرے گا“۔

اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے کہاکہ ”آج کا ہنگامی دور اگرچہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور مساوات کے علم برداروں کے لئے ایک مشکل وقت ہے لیکن یہ ایک عارضی دور ہے۔ ایک دن بر صغیر اور دنیا میں امن اور انصاف کا سورج ضرور طلوع ہو گا“۔

اس سے پہلے تقریب کے منتظم اور واشنگٹن میں ’SDW‘کے ڈائرکٹر ڈاکٹر قیصرعباس نے عائشہ جلال کا تعارف کراتے ہوئے ان کا اور ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا شکریہ اداکیا۔ انہوں نے کہا کہ”تنظیم کے صدر امیر مکھانی کی مالی سرپرستی کے بغیر اس تقریب کا انعقاد آسان نہیں تھا۔ ڈیلس سے آئے ہوئے تنظیم کے بورڈ ممبر اور انسانی حقوق کے کارکن آفتاب صدیقی نے بھی عاصمہ جہانگیر کی زندگی اور ان کی خدمات پر نظر ڈالی۔ ولسن سنٹر اور’SDW‘ اس لیکچر سیریز کے ذریعے ہر سال عاصمہ جہانگیر اور ان کے پیغام کو پھیلانے کا عزم رکھتے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts