خبریں/تبصرے

شاہ محمود قریشی کی سبکی اور پاکستان میں بڑھتی میڈیا سنسرشپ کا معاملہ

فاروق طارق

تحریک انصاف حکومت کو میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے گزشتہ روز اس وقت بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی جب لندن میں ’دفاعِ آزادی میڈیا‘ کے عنوان سے ہونے والی ایک کانفرنس میں عالمی میڈیا نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بائیکاٹ کر دیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شرمندگی کے عالم میں خالی کرسیوں سے خطاب کرتے رہے۔

کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے بائیکاٹ سے قبل شاہ محمود قریشی کو کھری کھری سنائیں کہ آپ کو شرم آنی چاہیے کہ پاکستان میں سچائی کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے اور میڈیا پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا ٹوئٹر اکاؤنٹ آپ کی حکومت نے بند کرا دیا ہے۔ جبکہ وزیر خارجہ ڈھٹائی سے کہتے رہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے۔ اس تلخ کلامی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل رہی۔

ابھی پچھلے ہفتے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل نے ملک کے نامور صحافیوں کیخلاف سوشل میڈیا پرجاری مذموم پراپیگنڈہ مہم کیخلاف قرارداد مذمت منظور کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس مہم کے ذمہ داروں کیخلاف سخت ایکشن لے۔

ہفتہ کے روز صدر افضل بٹ اور سیکرٹری جنرل ایوب جان سرہندی کی زیر صدارت نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پی ایف یو جے کے اجلاس کے دوران اس معاملے پر ایک خصوصی سیشن میں سینئر صحافی حامد میر، عاصمہ شیرازی، جاوید چوہدری، عمار مسعود اور اویس توحید نے خصوصی طور پر شرکت کی۔

حامد میر نے شرکا کو بتایا کہ 30 صحافیوں جن میں اینکر اور رپورٹر بھی شامل ہیں کا ایک پوسٹر جاری کیا گیا ہے جس میں انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا ہے اور کچھ کو غیر مسلم قرار دے کے ان کی زندگیاں خطر ے میں ڈال دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان میں غیر اعلانیہ سنسر شپ ہے اور میڈیا پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔

سینئر صحافی عاصمہ شیرا زی نے شرکا کو بتایا کہ گزشتہ چند دنوں میں گمنام افراد ان کا پیچھا کرتے رہے ہیں اور اب تک دو مرتبہ ایک نامعلوم شخص ان کے گھر میں داخل ہو چکا ہے جس کی وہ پولیس میں بھی رپورٹ کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میرے خلاف سوشل میڈیا پر بھی ایک مذموم پراپیگنڈہ جاری ہے۔ مجھے درجنوں نامعلوم فون کالیں موصول ہو چکی ہیں جن میں مجھے ڈرایا دھمکایا گیا ہے۔“

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ریاستی اداروں کی جانب سے سخت غیر اعلانیہ سنسرشپ کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے۔ کچھ ریاستی ادارے ایک منصوبہ بندی کے تحت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دھونس، اشتہارات پر کنٹرول، ہراسانی اور یہاں تک کہ صحافیوں پر حملوں کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماضی قریب میں کینٹ کے علاقوں میں قومی اخبارات کی تقسیم میں روڑے اٹکائے گئے۔ جبکہ بڑے چینلوں کو کیبل آپریٹروں پر دباؤ کے ذریعے روکا گیا۔ ابھی تین دن پہلے مریم نواز کی لائیو تقریر نشر کرنے پر تین ٹی وی چینلوں کی نشریات بند کی گئیں۔

صحافیوں کو بلوچستان اور سابق قبائلی علاقوں میں آزادانہ طور پر رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے اور انہیں سکیورٹی کے نام پر تشدد کے شکار علاقوں سے دور رکھا جاتا ہے۔

پاکستان میں درجنوں صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں۔ انہیں ہراساں کیا گیا اور کئی ایک کو قتل بھی کیا گیا ہے لیکن ان واقعات میں ملوث کسی بھی شخص کو قانون نافذ کرنے والے ادارے تلاش یا گرفتار نہیں کرسکے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے پولیس ایسے حملوں کی تحقیقات سے انکار کر دیتی ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر معاشرے میں عدم برداشت، انتہا پسندی اور عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ایک صحافی کا کام مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

آزادی اظہار محض صحافیوں کی جنگ نہیں بلکہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ آزادی اظہار رائے کے حق کا شمار ان تیس بنیادی انسانی حقوق میں ہوتا ہے جن کا ذکر انسانی حقوق کے عالمی منشور میں کیا گیا ہے۔

عقل اور سوچ کے مطابق رائے قائم کرنا اور اس رائے کا اظہار کرنا انسان کی بنیادی خصلت ہے۔ اسی طرح اپنے آس پاس کی دنیا سے متعلق جاننا بھی انسان کی بنیادی خصلت ہے۔ لہٰذا اپنی رائے کا اظہار اور معلومات تک رسائی انسان کے فطری حقوق ہیں۔

انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 19 میں لکھا گیا ہے کہ ”ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اس کو ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ ہر شخص آزادی کے ساتھ بغیر کسی قسم کی مداخلت کے اپنی رائے پر قائم رہے اور جن ذرائع سے بھی چاہے ملکی سرحدوں کے حائل ہوئے بغیر معلومات اور خیالات کا حصول اور تر سیل کرے۔“

اظہار رائے اور جاننے کے حق کا استعما ل صحافت کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے ہوتا ہے جیسا کہ جلسہ جلوس، ڈرامہ، فلم، ادب، شاعری، تقریر و تحریر اور سماجی میڈیا بھی اس کے اہم ذرائع ہیں۔ ان تمام کی آزادی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی صحافت کی آزادی ضروری ہے۔

پاکستان میں یہ روایت بہت پرانی ہے کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر اظہار کرنے والے کسی شخص سے چھٹکارا حا صل کرنے کے لئے بڑی آسانی سے ان کو غدار اور کافر کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 اور A-19 آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کے حق کی گارنٹی دیتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں لکھا گیا ہے کہ ہر شہری کو تقریر کرنے اور آزادی سے اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ پریس آزاد ہوگا۔

لندن میں وزیر خارجہ کی جو سبکی ہوئی وہ ان اقدامات کی وجہ سے ہے جو تحریک انصاف حکومت میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے کر رہی ہے۔ آوازیں دبانے سے دبتی نہیں مزید پھیل جاتی ہیں۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔