پاکستان

الیکشن کمپئین، نتائج اور آگے کا لائحہ عمل

عمار علی جان

پی پی 160 میں حقوق خلق پارٹی نے ایک شاندار انتخابی مہم چلائی جس کو علاقے اور قومی میڈیا پر سراہا گیا۔ لیکن اس بھرپور کیمپین کے نتیجے میں ہمیں صرف 1573 ووٹ ملے جو ہماری محنت کی عکاسی نہیں کرتی۔ آخری دنوں میں ووٹوں کی خرید و فروخت، انتظامیہ کی طرف سے پولنگ ڈے پر دھاندلی، انٹرنیٹ کی بندش اور ہماری الیکشن ڈے کی کمزوری کی وجہ سے بھی ہمارا ووٹ ضائع ہوا۔ لیکن پھر بھی کیمپین کی توانائی اور ووٹوں میں فرق کا حقیقت پر مبنی گہرا سیاسی اور نظریاتی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے پیش نظر ہم باائیں بازو کو آگے بڑھا سکیں۔

حقوق خلق پارٹی نومبر 2022 میں رجسٹر ہوئی اور دسمبر 2022 میں ہم نے اس حلقے سے لڑنے کا باضابطہ فیصلہ کیا۔ ہم اس وقت اس حلقے کی ایک یا دو گلیوں میں موجود تھے۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن مارچ 2023 میں متوقع تھے اور ہم چاہتے تھے کہ مشکل حالات کے باوجود پارٹی کو الیکشن میں متعارف کروایا جائے۔اس سے پہلے ایک ایکٹوسٹ اور مزاحمتی گروہ کے حوالے سے ہمارا نام بن چکا تھا لیکن سیاسی طور پر لوگوں کو لگتا تھا کہ یا یہ لوگ پیپلزپارٹی میں جائیں گے یا پھر عالمی لیول پر دانشور بنیں گے۔ اس تاثر کو توڑنا ہمارے مستقبل کی سیاست کے لئے لازمی تھا۔

جنوری 2023 میں ہم نے کیمپین شروع کی تو عوام کا ردعمل اچھا تھا۔ ہماری ٹیم نوجوانوں پر مشتمل تھی اور پوری کوشش کررہی تھی کہ محنت کشوں کے ساتھ ایک نیا رشتہ بنایا جائے۔ اس وقت ہی ہمیں علم ہوچکا تھا کہ الیکشن ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا لیکن ہم نے مسلسل جلسے، ریلیوں اور ڈور ٹو ڈور کے ذریعے اپنے نظریے کو عوام کے سامنے رکھا۔

مارچ اور پھر اپریل میں الیکشن ملتوی ہوگئے۔ ایسے میں ہم نے علاقے میں کام کرنا نہیں چھوڑا بلکہ فیصلہ کیا کہ دوستوں کے ساتھ مل کر ادارے بنائیں۔ تعلیم کے لئے چراغ گھر اور خلق اکیڈمی بنائی، صحت کے لئے خلق کلینک بنایا اور مزدوروں کے حقوق کی آگاہی کے لئے خلق لیبر اکیڈمی بنائی۔ اسی دوران بجلی کے بلوں سے لے کر فلسطین، اور ملٹری کورٹس سے لے کر محکوم قوموں کے حقوق اور دیگر ایشوز پر مسلسل ایکٹیویٹی کی۔ اسی دوران قائد اعظم انڈسٹریل سٹیٹ میں زبردست لڑائی لڑی گئی جس میں سینکڑوں مزدوروں کو ان کے واجبات دلوائے گئے۔

اس طرح کے کام ہم نے اپنی سیاست میں پہلے نہیں کئے تھے۔ یہ سب ہمارے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔ ورکنگ کلاس میں اتنی گہرائی سے جانا ایک نیا عمل تھا جس میں ہم مسلسل سیکھ رہے تھے۔ الیکشن کے دوران حلقے میں تقریبا ہر شخص کو ہماری پارٹی کا علم تھا جو ہمارے لئے بہت باعث فخر تھا۔ پارٹی ایک شاندار الیکشن سیل قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوئی جو ڈیٹا پر مسلسل کام کررہا تھا۔

پھر ایسے میں 1573 ووٹ کیوں ملے؟ لوگ ہماری باتوں کو سراہتے تھے لیکن ووٹ انہوں نے قومی ایشوز اور صرف قومی پارٹیوں کو دیا۔ وہ کہ رہے تھے کہ آپ کا بیانیہ اور نظریہ اچھا ہے لیکن ووٹ اپنی پارٹی کو دیں گے۔ ایک لحاظ سے ان الیکشن کا فیصلہ ووٹر اپریل 2022 میں ہی کر کے بیٹھ گئے تھے جس میں کوئی نئی پارٹی کا اپنے آپ کو متعارف تو کرواسکتی تھی لیکن ووٹ لینا ناممکن ہوچکا تھا۔ اسی وجہ سے بلاول بھٹو این اے 127 میں اتنے پیسے لگانے کے باوجود صرف 15000 ووٹ لے سکے کیونکہ ووٹر اپنا فیصلہ پہلے ہی کرچکا تھا۔

ایسے میں ہمیں فخر ہے کہ 14 ماہ قبل وجود میں آئی پارٹی اور اس کا نشان حلقے، سوشل میڈیا اور قومی میڈیا میں زیربحث رہا۔ سینکڑوں نئے لوگوں سے رابطے ہوئے اور درجنوں نے نوجوانوں نے ہمارے لئے رضاکارانہ طور پر کیمپین کی۔ میں ان تمام ساتھیوں کا مشکور ہوں جنہوں نے ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔

ہمارے لئے چیلنج یہ ہے کہ اگلے 5 سالوں میں طبقاتی جدوجہد کو تیز کیا جائے اور عوام کے ایشوز قومی/فیڈرل ایشوز بنایا جائے۔ جب تک معاشی ایشوز کو سیاسی رنگ نہیں دیا جاتا، تب تک لیفٹ کے لئے ملکی سیاست میں جگہ بنانا مشکل ہوگا۔ اور یہ بات طے ہے کہ ملکی سیاست میں جگہ بنائے بغیر حلقے کی سیاست میں بھی جگہ بنانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم بڑے پیمانے پر حلقے اور ملک بھر کے محنت کش نوجوانوں کی نظریاتی ٹریننگ کا پلان ترتیب دے رہے ہیں جس کے ذریعے ملک میں لیفٹ کا بہترین کیڈر تشکیل دیں گے۔

شکست ایک انقلابی تحریک کے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے آگے کے راستے کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ ورکنگ کلاس میں کام کرنے سے ہماری کمٹمنٹ اس ملک کے غریب عوام کے ساتھ مزید پختہ ہوئی ہے۔ حکمران طبقات فیل ہوچکے ہیں اور ملک میں شدت سے ایک متبادل کی ضرورت ہے۔ ہم اس تاریخی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے انتھک محنت کرنے کے لئے تیار ہیں۔

Ammar Ali Jan
+ posts

عمار علی جان حقوق خلق موومنٹ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔