عمار علی جان
لاہور کا پیکیجز مال شہر میں شاپنگ کلچر کی علامت ہے۔ روزانہ سینکڑوں لوگ یہاں سامان تعیش خریدنے یا وقت گزاری کے لئے آتے ہیں۔ اس ظاہری چمک دمک کے پردے پیچھے پیکیجز مال کا ایک بھیانک چہرہ بھی ہے یعنی اس مال کے وہ ملازمین جن کا جی بھر کر استحصال کیا جاتا ہے۔ اب یہ بھیانک چہرہ آشکار ہونے لگا ہے۔
پیکیجز مال نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے سیکورٹی سٹاف کو آؤٹ سورس (Out Source) کر دے گا یعنی ایک طرح سے ٹھیکے پر دے دے گا۔ سیکورٹی سٹاف نے متفقہ طور پر اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ آؤٹ سورس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پیکیجز مال ان ملازمین کی تنخواہ یا سوشل سیکورٹی اور پنشن ایسی دیگر ذمہ داریوں سے جان چھڑا لے گا۔ کچھ سیکورٹی گارڈ تو پہلے ہی نوکری سے نکال دئیے گئے ہیں جبکہ بہت سے دیگر سیکورٹی ملازمین کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔
پیکیجز مال کے مالک بابر علی نے لمز یونیورسٹی کے صفائی مزدوروں کے خلاف بھی یہی حربہ استعمال کیا تھا۔ آؤٹ سورس کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مالک اپنا خرچہ بچانا چاہتے ہیں اور منافع بڑھانا چاہتے ہیں۔ یہ حربہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس حربے کو آزما کر مالکان ملازمین کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اپنا خرچہ بھی بچاتے ہیں۔
شرمناک بات یہ ہے کہ یہ عمل ماہ رمضان اور کورونا وبا کے دوران کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی سرمایہ دار ہیں جو ان دنوں گاہے بگاہے غریبوں کو خیرات دیتے بھی نظر آتے ہیں تا کہ نیک نامی کما سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ زکوۃ خیرات دینے والے یہ سیٹھ مزدور قوانین کی دھجیاں بکھیر کر غربت بھی پھیلا رہے ہوتے ہیں۔
ان سیٹھوں کی اس منافقت کا پردہ چاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پیکیجز مال کے سیکورٹی عملے کے ارکان کے علاوہ ان تمام مزدوروں اور مازمین کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا جائے جو مزدور حقوق اور سرمایہ داری کی لوٹ مار کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔