نقطہ نظر

اجتماعی مسائل کے انفرادی حل نہیں ہوتے: لاٹری کے ذریعے غربت ختم نہیں کی جا سکتی

فاروق سلہریا

چند روز قبل، پروفیسر حضرات کی ایک محفل میں بیٹھا تھا۔ ایک صاحب نے محفل کے دس منٹ یہ کہانی سنانے میں ضائع کئے (جو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں)کہ کوئی صاحب دنیا کو سنوارنے نکلے، دنیا نہیں سنوری، انہوں نے سوچا،دنیا کو چھوڑو،اپنا ملک سنوارتا ہوں۔ پورا ملک گھوما، ملک نہیں سدھرا۔ بات شہر اور گاوں سے ہوتی ہوئی یہاں پہنچی کہ مذکورہ صاحب نے دنیا کو سنوارنے کی بجائے خود کو سنوارنے کا فیصلہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم خود ٹھیک ہو جائیں تو دنیا ٹھیک ہو جائے گی۔

پاکستان تحریک انصاف نے بھی بد عنوانی ختم کرنے کے لئے اسی قسم کا بیانیہ دیا: اگر اچھے لوگ اعلی ٰ عہدوں پر بیٹھے ہوں تو بد عنوانی ختم ہو جائے گی (شخصیت پرستی کو فروغ دینے کے لئے یہ نعرہ بھی دیا گیا کہ اگر ٹیم کا کپتان اچھا ہو تو ٹیم ورلڈ کپ جیت جائے گی)۔

یہ ایک مذہبی نوعیت کا بیانیہ ہے۔اکثر مذہبی پیشواوں نے صدیوں تک سماج کو یہی درس دیا کہ خود کو ٹھیک کر لو تو معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔ بہت سے سماجی مصلحین بھی اسی قسم کا بیانیہ اور حل پیش کرتے رہے۔

مصیبت یہ ہے کہ اجتماعی مسائل کے انفرادی حل نہیں ہوتے۔

ماحولیات ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ انفرادی سطح پر، اگر قسمت اچھی ہو تو انسان کسی حد تک غربت کے چنگل سے تو نکل جاتا ہے لیکن لاہور کے ارب پتی بھی وہی آلودہ ہوا پھیپھڑوں میں سمیٹ رہے ہیں جو لاہور کے محنت کش (گو اس آلودگی کے ذمہ دار ارب پتی حکمران ہیں)۔

دور غلامی میں بعض غلام فرار ہو جاتے تھے لیکن اکثریت فرار کی بجائے غلامی کی سختیوں اور ذلتوں کو ترجیع دیتی تھی کیونکہ فرار ایک تو غیر یقینی زندگی کا نام تھا، موت کا بھی خطرہ تھا اور مفرور غلام کی زندگی بھی کوئی بہتر زندگی نہ ہوتی تھی۔

جب غلامی کے خلاف اجتماعی جدوجہد کامیاب ہوئی تب ہی دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوا۔

یہی حال طبقاتی نظام کا ہے۔ چند غریب لوگوں کے یورپ یا امریکہ فرار ہو جانے سے پاکستان میں غربت اور نا ہمواری ختم نہیں ہو سکتی۔ چند غریب نوجوانوں کے سی ایس ایس کر جانے سے غربت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ الٹا حکمران طبقہ اس قسم کی انفرادی مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ نظام تو ٹھیک ہے، تم غریب لوگ ہی نالائق ہو جو محنت نہیں کرتے۔ وہ کبھی یہ بات نہیں بتائیں گے کہ لاٹری کے ذریعے غربت ختم نہیں کی جا سکتی۔

پدر سری نظام، چائلڈ لیبر، آمریت، قومی جبر، سامراج۔۔۔جبر کی بے شمار قسمیں ہیں جن کا کوئی انفرادی حل نہیں۔ ان تمام انسانیت دشمن نظاموں اور عفریتوں سے نجات پانے کے لئے سوشلزم کے جھنڈے تلے اجتماعی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔