خبریں/تبصرے

پاکستان میں پہلا مخصوص سوشلسٹ فیمنسٹ رسالہ ’’ناریواد‘‘ آن لائن لانچ کیا جا رہا ہے

لاہور(جدوجہد رپورٹ) یہ خبر پاکستان کے ترقی پسند حلقوں اور فیمنسٹ سکالرشپ کے لئے ایک خوش آئند خبر ہے۔ یہ رسالہ پاکستان میں فیمنسٹ سکالرشپ کی جامد ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

رسالہ عصمت شاہ جہان اور سعدیہ کھتری کی ایڈیٹوریل رہنمائی میں شائع کیا جائے گا، اور اس کے ایڈیٹوریل کولیکٹیو میں کئی دوسری ترقی پسند خواتین شامل ہیں۔

روزنامہ جدوجہد سے بات کرتے ہوئے عصمت شاہ جہان نے کہا کہ ناریواد (فیمنزم) ایک آن لائن میگزین ہے، جس کا مقصد سماج، سیاست، فن اور ثقافت کا سوشلسٹ و فیمنسٹ نقطہء نظر سے تجزیہ فراہم کرنا ہے۔ ہم ایک غیر کاروباری (نان کمرشل) آن لائن میگزین ہیں، جسے ’ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (پاکستان میں قائم ایک آزاد سوشلسٹ فیمنسٹ تنظیم) شائع کرتی رہی ہے۔ ناریواد کو دسمبر 2018ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ پہلے یہ ہارڈ کاپی کی شکل میں شائع ہوتا تھا، اور اس کے اجزاء ریاستی زبان اردو کے علاوہ پاکستان کے پانچ قومی زبانوں بشمول بلوچی، پشتو، سندھی، سرائیکی، اور پنجابی میں چھپتے تھے، مگر اب ہم اِسے دو زبانوں میں آن لائن شائع کر رہے ہیں، اور دونوں حصوں کے اجزاء یعنی مواد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

ناریواد کے مصنفین اور انتظامی ٹیم سب رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ایک سیلف فنڈڈ یعنی خود کفیل کام ہے۔ ناریواد نہ صرف رضاکارانہ تحریروں پر چلتا ہے، بلکہ اِس کے اخراجات کے لئے ناریواد ہم خیال ترقی پسند افراد کے چندوں، اور اپنے قارئین کے تعاون پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم، کارپوریٹ سیکٹر اور/یا این جی اوز سے ادارتی فنڈنگ قبول نہیں کرتے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایسے فیمنسٹ سکالرشپ اور دانشوروں کی اشد ضرورت ہے، جس کی جڑیں سماج کی اپنی حقیقی تاریخوں، معروضی حالات اور عصری حقائق میں ہوں، جو صحیح معنوں میں عوام کے بیانیے کی نمائندگی کرتے ہوں ۔۔۔۔ خاص کر محنت کش طبقے کے لوگوں، محکوم قوموں، عورتوں، خواجہ سراؤں اور زیرِعتاب مذہب و فرقوں کے لوگوں کی آوازوں کی۔

ہماری نظر میں اِدارتی فنڈز کی مالی اعانت سے چلنے والی سکالرشپ ملک میں فیمنسٹ تحریکوں صحیح معنوں میں نمائندگی نہیں کر سکی ہے۔ ادارتی فنڈز سے چلنے والی یا اس کے زیر قیادت سکالرشپ اکثر نیولبرل، قدامت پسند، کالونیل اور یوروسینٹرک رجحانات کا شکار ہوتی ہے، اور یہ مسخ شدہ تاریخوں اور نظریات پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثر فیمنسٹ جدوجہد، مزاحمت اور کام نیولبرل، قدامت پرست اور یوروسینٹرک نقطہ نظر کا شکار ہو کر ترقی پسند شکل میں تاریخ سے مٹ جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں ’ٹیکسٹ انڈسٹری‘ عوام اور عوامی رائے کو کنٹرول کرنے اور دنیا بھر کے لوگوں کی تنقیدی صلاحیتوں کو محدود کرنے کے لیے کمیشنڈ پروڈکشنز پر اربوں خرچ کرتی ہے۔ ان نظریات اور رجحانات نے ناصرف پاکستان میں سماجی علوم کے شعبے کو متاثر کیا بلکہ تعلیم اور معاشرے میں ترقی پسند سوچ اور عمل کے ارتقاء کو بھی جامد کیا ہے۔

ہمارا مقصد نیو لبرل سکالرشپ، ٹیکسٹ انڈسٹری، اور کارپوریٹ سٹڈیز، اور ریاستی بیانیے کا ایک نظریاتی اور سیاسی متبادل پیش کرنا ہے۔ ایک ایسا متبادل جو ترقی پسند سوچ اور عمل، اقدار، اور ایک مساوی معاشرے کی تعمیر کے لیے تنقیدی اور جمہوری سوچ کو فروغ دے سکے۔

ناریواد ’بیگانگی‘ پیدا کرانے والے سماجی علوم کی جگہ متبادل سکالرشپ کی سپیس ہے۔ ۔ ۔ ایک ایسا متبادل جو اس خطہء زمین پر بسنے والی اقوام کی سیاسی مزاحمت، تاریخ، تہذیب، سیاست و ثقافت، پیداواری نظام اور تعلقات سے نامیاتی/ عضوی (آرگینکلی) اور خلقی طور پر پیدا ہونے والے علم، سچ اور حق پر مبنی ہو۔

انہوں نے کہا ہم اس کام کو آگے بڑھانے میں تمام ہم خیال حلقوں سے سپورٹ کی اُمید رکھتے ہیں کیونکہ بیانیے کی یہ جنگ اکیلی نہیں لڑی جا سکتی۔ اور ہم چاہیں گے کہ تمام ہم خیال افراد ناریواد کو پھیلانے میں ہمارا ساتھ دیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts