دنیا

آسکرز میں سیاست

ڈین لا باٹز

تقریباً19.5ملین ناظرین نے اتوار10مارچ 96ویں سالانہ آسکر ایوارڈ میں شرکت کی، تاکہ یہ جان سکیں کہ بہترین فلم، بہترین اداکارکا ایوارڈ کس نے حاصل کیا اور کس نے سب سے بہتر ہونے کا ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ کافی دیکھنے لائق تماشہ تھا اور بہت سیاسی بھی تھا۔

ٹھیک ہے، یقینا اس سب کا بنیادی مقصد پیسہ ہے۔ امریکی فلمیں عالمی فلمی منڈی اور آسکرز پر حاوی ہیں۔ اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز کی جانب سے پیش کیے جانے والے ایوارڈز صنعت میں مالی اور فنکارانہ کامیابی کے عروج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اکیلے ’باربی‘نے ایک ایسی صنعت میں تقریباً 1.5 ارب ڈالر کمائے، جو سینکڑوں ارب ڈالر کماتی ہے۔ پھر یہ فیشن کے بارے میں بھی ہے،جب خواتین ریڈ کارپٹ پر اپنے شاندار گاؤن دکھاتی ہیں اورجب مرد اپنے ایک جیسے ٹیکسیڈوزمیں پینگوئن کی طرح پریڈ کرتے ہیں۔ تاہم رواں سال پہلے سے زیادہ یہ تقریب نہ صرف ایک شاندار تماشا تھی، بلکہ خاص طور پر ایک سیاسی تقریب بھی تھی۔

بہترین فلموں کے نامزد افراد خود بہت سے معاملات میں خاص طور پر سیاسی تھے۔ اپنے بالکل مختلف طریقوں سے’باربی‘ اور’پوور تھنگز‘ دونوں ہی حقوق نسواں کی فلمیں تھیں، جن میں پہلی متضاد طور پر نسوانی دقیانوسی تصورات کا مذاق اڑانے اور تقویت دینے والی تھی اور دوسری فرینکین اسٹائن اور پگمالین (مائی فیئر لیڈی) کا حیرت انگیز طور پر عجیب امتزاج تھی، جو مردوں کے کنٹرول سے خواتین کی آزادی کے حق کی وکالت کرتی ہے۔ ’اوپن ہائمر‘ نے ہمیں ایک بار پھر ایٹم بم کے خطرے پر توجہ مرکوز کرنے کی طرف راغب کیا،جس کے ساتھ ہم ایک صدی کے تین چوتھائی سے زیادہ عرصے سے جی رہے ہیں۔ لیونارڈ برنسٹین کے بارے میں بننے والی فلم ’مائسٹرو‘نے بیسویں صدی کے وسط میں،یہاں تک کہ امیر اور مشہور لوگوں کیلئے بھی،ہم جنس پرست ہونے کی مشکل کو سامنے لانے کی کوشش کی (جیسا کہ ’رسٹن‘ نے شہری حقوق کے منتظم بائر رسٹن کے بارے میں فلم بنائی، جسے بہترین فلم کے لیے نامزد نہیں کیا گیا)۔’امریکن فکشن‘ نے ادب اور زندگی میں نسل پرستی کو اجاگر کیا، اور’کلرز آف دی فلاور مون‘ نے 1920 کی دہائی میں اوکلاہوما میں دھوکہ دہی سے انڈین زمین حاصل کرنے کے لیے سفید فام آباد کاروں کے پرتشدد قتل کی تصویر کشی کی۔

اب آئیے آسکر ایونٹ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جیسے ہی تقریب کا آغاز ہوا ’جمی کامل لائیو شو‘کے میزبان جمی کامل نے چوتھی مرتبہ آسکر کی میزبانی کی۔ انہوں نے اداکاروں اور لکھاریوں کی ہڑتال اور ان کے مسائل کے بارے میں بات کرنے کیلئے اپنے تعارفی مزاحیہ مونولاگ کے آخری چند منٹوں کا استعمال کیا۔ انہوں نے ہالی ووڈ کو ایک یونین ٹاؤن قرار دیا۔

آسکر کے یادگار حصے میں اکیڈمی نے روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی کو اعزاز سے نوازا، جو 2022 کی فلم’ناوالنی‘ میں پیش کیے گئے تھے۔ اس فلم نے 2023 میں بہترین دستاویزی فلم کا اکیڈمی ایوارڈ جیتا تھا۔ اس سال کی بہترین دستاویزی فلم کا اعزاز ’20ڈیز ان ماریوپول‘نے حاصل کیا۔ اپنے آسکر ایوارڈ کو قبول کرتے ہوئے ہدایت کار نے کہاکہ ”شاید میں اس اسٹیج پر پہلا ہدایت کار ہوں گا جو کہے گا، کاش میں نے یہ فلم کبھی نہ بنائی ہوتی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ روس نے کبھی یوکرین پر حملہ کرکے اس کے شہروں پر قبضہ نہ کیا ہوتا اور انہوں نے روسی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی جیلوں میں قید فوجی اور سویلین قیدیوں کو رہا کرے۔

ہدایت کار جوناتھن گلیزر کی جرمن زبان کی فلم’زون آف انٹرسٹ‘ نے بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کا اعزاز حاصل کیا، یہ فلم ایک نازی کمانڈنٹ اور اس کی اہلیہ کے بارے میں تھی،جو آشوٹز کے حراستی کیمپ کے ’زون آف انٹرسٹ‘ میں رہائش پذیر تھے اور وہاں 10 لاکھ سے زائد یہودی ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے فلسطین کے بارے میں بات کرنے کے لیے اپنے وقت کا فائدہ اٹھایا۔

انہوں نے اپنی فلم اس لڑکی کو وقف کر دی جس نے مزاحمت کی۔ تقریب میں شامل لوگوں کی ایک اچھی تعداد نے’آرٹسٹ فار سیز فائر‘ کی پنیں پہن رکھی تھیں۔

اپنی ترقی پسند سیاست کیلئے شہرت رکھنے والا ہالی ووڈ بہت سی عمدہ سیاسی فلمیں بناتا ہے اور کچھ امریکی بظاہر ایسے تنقیدی خیالات بھوکے ہیں۔حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ہالی ووڈ فلمیں بناتا ہے اور امریکی بہت زیادہ

ہالی ووڈ، جو اپنی ترقی پسند سیاست کے لیے جانا جاتا ہے، بہت سی عمدہ سیاسی فلمیں بناتا ہے اور کچھ امریکیوں کو بظاہر ہمارے ملک کے بارے میں ایسے تنقیدی خیالات کی بھوک لگتی ہے، حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ہالی ووڈ فلمیں بناتا ہے اور امریکی بہت زیادہ ناکارہ سینما دیکھتے ہیں۔

(نوٹ: مصنف کی یہ تحریر انگریزی زبان میں ’نیو پالیٹکس‘ پر شائع ہوئی ہے، جسے جدوجہد کے قارئین کیلئے ترجمہ کیا گیا ہے۔)

Roznama Jeddojehad
+ posts