لاہور(جدوجہد رپورٹ) دہلی میں واقع سول سوسائٹی تنظیم یونائیٹڈ کرسچن فورم نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے 2024ء کے پہلے ڈھائی ماہ کے دوران بھارتی عیسائیوں کے بنیادی حقوق میں بڑے پیمانے پر گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔
’دی وائر‘ کے مطابق تنظیم نے کہا کہ جنوری میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 70واقعات ہوئے، اس کے بعد فروری کے 29دنوں میں 62واقعات اور مارچ کے پہلے 15دنوں میں 29واقعات ہوئے۔ اس طرح ڈھائی ماہ کے دوران کل 161واقعات رونما ہوئے۔
ان واقعات میں تشدد، گرجا گھروں یا عبادت گاہوں پر حملے، ہراسانی، بائیکاٹ اور کمیونٹی وسائل تک رسائی کومحدود کرنا، جھوٹے الزامات اور جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات شامل ہیں۔
پریس ریلیزکے مطابق چھتیس گڑھ میں اپنے مذہب پر عمل کرنے پر عیسائیوں کا بائیکاٹ جاری ہے۔ عیسائیوں کو گاؤں کے کمیونٹی بورویل سے پانی تک رسائی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ کئی لوگوں کو عیسائی رسم و روا ج کے مطابق تدفین کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ عیسائیوں کو گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔ مقامی لوگ ان پر حملے کر رہے ہیں اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی جا رہی ہے۔
اتر پردیش میں چھتیس گڑھ کے بعد سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔ وہاں عیسائیوں پر حکومتی سرپرستی میں ہراسانی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ پولیس نے سالگرہ کی پارٹیوں اور دیگر سماجی اجتماعات میں عبادت کرنے پر بھی پادریوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کئے۔
مجموعی طور پر بھارت کی 19ریاستوں میں عیسائیوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے پر موت کے خطرے کا سامنا ہے۔ 2024کے صرف 75دنوں میں 122مسیحی ایسے ہیں، جنہیں تبدیلی مذہب کے جھوٹے الزام میں یا تو حراست میں لیا گیا ہے یا گرفتار کیا گیا ہے۔
تنظیم کے کنونیئر کے مطابق کئی معاملات میں پولیس مجرموں کی بجائے اس طرح کے تشدد کے متاثرین کے خلاف ایف آئی آر درج کرتی ہے، جبکہ مجرموں کو رعایت دی جاتی ہے۔ دوسری صورت میں پولیس عام طور پر متاثرین کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتی ہے کہ اگر آپ نے مقدمہ درج کیا تو وہ مزید جارحیت سے کام لے سکتے ہیں اور پھر آپ کی جان کو زیادہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔