فاروق سلہریا، حارث قدیر
فاطمہ ملک کا کہنا ہے:’’پاکستان اور چین کے قرضوں کا سوال بہت اہم ہے۔ پاکستان کے کل بیرونی قرضے 130ارب ڈالر ہیں، ان میں سے 40ارب ڈالر چین سے لئے گئے ہیں۔ یہ تقریباً کل قرضے کا 30فیصد بنتے ہیں۔ ۔۔ ملٹی لیٹرل ڈونرز کے قرضوں کے میچورٹی کا دورانیہ کم سے کم 15 سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود بھی 1.5کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ چین کے قرضوں کی میچورٹی کا دورانیہ 9.1سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود 3.72فیصد۔‘‘ـ
فاطمہ ملک بیکن ہاوس یونیورسٹی میں معاشیات پڑھاتی ہیں۔بیرونی قرضوں پر تحقیق ان کا خاص موضوع ہے۔ حال ہی میں ان سے پاکستان کی معاشی صورتحال پر‘روزنامہ جدوجہد’ نے ایک تفصیلی انٹرویو کیا جس کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں(نوٹ: یہ انٹرویو وفاقی بجٹ کا اعلان ہونے سے پہلے کیا گیا):
گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے بات چل رہی ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے، اس سے قبل سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کا اعلان ہو چکا ہے۔ دیوالیہ ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے، کیا پاکستان اس طرف جا رہا ہے؟ ملک دیوالیہ ہونے کے اشارے کیا ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک عام آدمی کو کیسے سمجھائیں گی؟
فاطمہ ملک : بنیادی طور پر دیوالیہ ہونے سے مراد یہی ہے کہ جب کسی ملک کے بیرونی قرضے اور واجبات اسکے وسائل سے زیادہ ہو جائیں اور وہ ملک ادائیگی کے قابل نہ رہے۔ ایسے میں اس ملک کی بیرونی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اس کے ڈونرز مزید قرضے دینے سے گریز کریں گے۔ سرمایہ کار بھی ایسے ملک میں سرمایہ کاری سے گریز کریں گے۔ جب کسی بھی ملک میں مالی بحران جیسی کیفیت ہو تو وہ پھر سرمایہ کاری کے منافعوں پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ سرمایہ کار کو کسی قسم کا رسک پسند نہیں ہوتا۔ اس لئے جب کوئی ملک دیوالیہ ہو جائے یا دیوالیہ ہونے والا ہو تو اس کو ایسے تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسائل پھر بحران کو مزید گہرا کر تے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کاروباری حلقے سے قرض لیتا ہے اور واپس نہیں کر سکتا تو اسے مزید قرض دینے والے بھی ہچکچانے لگتے ہیں۔ اس سے اس کی مالی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اشاروں کی بات کی جائے تو اس کیلئے ہمیں کچھ ایسے ممالک کا جائزہ لینا پڑے گا جو ایسی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ماضی میں بہت سے ملک ایسی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ 90کی دہائی کے آغاز میں ارجنٹینا، برازیل اور کیوبا جیسے ملک دیوالیہ ہوئے، بعد ازاں مشرقی ایشیائی ممالک تھائی لینڈ، فلپائن، انڈونیشیا اور ملائشیا میں بحران آیا۔ 2020میں لبنان اور ارجنٹینا دیوالیہ ہوئے اور حال ہی میں 2022میں سری لنکا میں ہم نے یہ صورتحال دیکھی۔
اگر ہم ان تمام ملکوں کی معیشتوں کا تجزیہ کریں اور کچھ مشترکات کی نشاندہی کریں تو ایک چیز سب میں مشترک ہے کہ ان تمام ملکوں میں جیسے ہی بحران آیا تو ان کا جی ڈی پی بہت بری طرح سے متاثر ہوا۔ بحران سے پہلے بھی جی ڈی پی کی کارکردگی اچھی نہیں تھی، لیکن پھر بھی وہ منفی میں نہیں تھی۔ جیسے ہی بحران آیا تو ان کے جی ڈی پی کی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی۔
دوسری چیز افراطِ زر ہے، جو خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ 2022میں سری لنکا میں بحران آتے ہی افراط زر 50فیصد سے تجاوز کرگیاتھا۔ ماضی میں بھی تھائی لینڈ اور انڈونیشیا وغیرہ میں 60فیصد تک افراط زر میں اضافہ ہوا۔
تیسری اہم چیز ایکسچینج ریٹ ہے، جس میں اضافہ ہوتا ہے اور مقامی کرنسی کی قدر بری طرح سے گر جاتی ہے۔
ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ بیرونی قرضے کی شرح جی ڈی پی کے تناسب سے تیزی سے بڑھتی ہے۔ سری لنکا کی مثال لیں تو بحران سے ایک سال قبل بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 68فیصد کے برابر تھا، جبکہ 2022میں یہ 81فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ باقی جن ملکوں میں بحران آئے وہاں بھی یہ صورتحال دیکھنے میں آئی۔ سب سے اہم پہلو غربت ہے، جس کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
اشاروں کے حوالے سے سب سے اہم چیز بیرونی قرضہ ہے۔ جو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتے ہیں ان میں بیرونی قرضے کی شرح بہت بڑھ جاتی ہے۔ شارٹ ٹرم قرضوں کی شرح میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔یہ قرضے کم وقت میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اسی طرح لیکویڈیٹی کی شرح کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قرضے ادا کرنے کی صلاحیت کو مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیٹ سروسنگ(debt servicing) بھی دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیٹ سروسنگ کو برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن کے تناسب سے دیکھا جاتا ہے۔ گراس فنانسنگ نیڈ (gross financing need)ہے، جو کسی بھی مد میں ہو سکتی ہے ۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے، بیلنس آف پے منٹ کیلئے یا زرمبادلہ کے تناسب میں بھی اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اشارہ امپورٹ کوور ریشو(import cover ratio) ہے۔ یہ درآمدات کیلئے موجود زرمبادلہ کے ذخائر کی سطح کو کہتے ہیں۔ ذخائر کا کم از کم تین ماہ کی درآمدات کی سطح تک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جب ذخائر تین ماہ کی درآمدات کی سطح سے کم ہونا شروع ہوتے ہیں تو ملک ریڈ زون کی طرف آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان تمام انڈیکیٹرز کی بنیاد پر معیشت دان یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کی لیکویڈیٹی کی حیثیت کس قدر متاثر ہو چکی ہے۔
پاکستان کے حوالے سے یہ صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے۔ بیرونی قرضے کی حد جی ڈی پی کے 40فیصد تک ہونی چاہیے، لیکن اس وقت بیرونی قرضہ 130ارب ڈالر ہے، جو جی ڈی پی کے 43فیصد ہے اور حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کی جون2024کیلئے گراس فنانسنگ نیڈ 28.3ارب ڈالر ہے، جبکہ ذخائر 9ارب ڈالر ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ذخائر سے تین گنازیادہ فنانسنگ نیڈ ہے۔ ان 28.3ارب ڈالر میں سے تقریباً20ارب ڈالر قرضوں کی فنانسنگ ہی ہے۔ اس کے علاہ امپورٹ کوور ریشو 2ماہ کیلئے ہی موجود ہے۔ 2020سے اب تک پاکستان کی امپورٹ کوور ریشو2ماہ سے کم ہی رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان گزشتہ 4سال سے خطرناک زون میں ہی موجود ہے۔ یوں بہت سے ایسے انڈیکیٹرز ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی طرف جا سکتا ہے۔
جی ڈی پی کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی کس سطح پر ترقی کر رہا ہے اور عام آدمی کی زندگی پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟ اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی بہت بات کی جاتی ہے۔ اس کی کیا صورتحال ہے؟
فاطمہ ملک: جی ڈی پی کسی بھی ملک کی آمدنی کو ماپنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس سے کسی بھی ملک کی کل پیداوار کی مارکیٹ ویلیو کو ماپا جاتا ہے۔ اس سے معیشت کی صحت اور حجم کا اندازہ ہوتا ہے۔ دیگر ملکوں کی معیشت سے بھی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں 2023میں جی ڈی پی کی ویلیو338ارب ڈالر رہی ہے۔ اگر اس کو پاکستان کی آبادی پر تقسیم کریں تو پاکستان میں اس وقت فی کس آمدن1553.5ڈالر ہے۔ جی ڈی پی مکمل معیشت کی تصویر نہیں دیتی، لیکن کسی حد تک معیشت اور فی کس آمدن کی مدد سے ملک میں رہنے والوں کے معیار زندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کا جی ڈی پی 27ٹریلین ڈالر ہے اور اس کی فی کس آمدن 61280ڈالر ہے۔ اس طرح پاکستان کے شہریوں اور امریکی شہریوں کے معیار زندگی میں فرق کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں جی ڈی پی کی ترقی کی شرح2023کے نظر ثانی شدہ اعداد و شمار کے مطابق منفی0.2ہو چکی ہے۔ یہ ایک بہت بری کارکردگی ہے۔ اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، سرمایہ کاری میں ریکارڈ کمی اور سیلاب کے اثرات جیسے عوامل اس میں کارفرما ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں کا جائزہ لیا جائے تو جی ڈی پی کی ترقی کی شرح ہمیشہ ‘بوم اینڈ بسٹ’(boom and bust) کی کیفیت میں رہی ہے۔۔۔ یعنی شرح ترقی مستحکم نہیں رہتی۔ اگر ایک سال ترقی ہوتی ہے تو دوسرے سال یہ شرح گر جاتی ہے۔ گزشتہ 15سالوں کو دیکھا جائے تو 2018میں جی ڈی پی کی ترقی کی شرح 6.1فیصد ہوئی۔ یہ تقریباً 11سالوں کے بعد6فیصد سے زائد شرح ترقی تھی۔ تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ اگلے ہی سال یہ شرح ترقی گر کر3.1فیصدتک رہ گئی۔ 2022کا سال جو پی ٹی آئی حکومت کا آخری سال ثابت ہوا، اس وقت ایک بار پھر معیشت میں بوم آیا اور ترقی کی شرح6.2فیصدتک بڑھی۔ تاہم اگلے ہی سال 2023میں یہ گر کر منفی 0.2ہو چکی تھی۔ ایک سال اگر کارکردگی اچھی ہوتی ہے تو اگلے ہی سال گراوٹ آجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ سال کی محنت سے جو کچھ بوم لایا جاتا ہے ، اگلے ہی سال اس کے تمام تر اثرات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
عام آدمی کا تو ان اعداد و شمار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ عام آدمی کو کچھ پتہ ہوگا۔ تاہم روزگار اور بنیادی ضروریات کی تکمیل عام انسان کیلئے اہم ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جی ڈی پی ترقی کرے گا تو اس کے پیچھے معیشت کے کسی نہ کسی شعبے کی ترقی کارفرما ہوگی۔ اس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہونگے۔ جہاں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے تو لوگوں کی آمدن کا ذریعہ بڑھے گا اور غربت یا بیروزگاری میں کمی آئے گی۔ عام آدمی کو تو روزگار اور آمدنی سے تعلق ہے۔ اس سب کیلئے جی ڈی پی کی ترقی بنیادی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ایک اور المیہ البتہ یہ ہے کہ گزشتہ15سالوں کے دوران جن سالوں میں جی ڈی پی کی ترقی کی شرح اوپر گئی، اس عرصہ میں بھی پاکستان کی بیروزگاری کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ترقی کے عرصہ میں بھی غربت میں کوئی کمی نہیں آسکی۔ رواں سال جی ڈی پی کی شرح ترقی کا جو تخمینہ لگایا جا رہا ہے وہ 0.3فیصد ہے، جو منفی سے تو بہتر ہے لیکن غربت کم کرنے کے حوالے سے انتہائی ناکافی ہے۔
سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔پاکستان میں 2023میں سرمایہ کاری کے اعداد و شمار تاریخ کی کم ترین سطح پر رہے ہیں۔ فکس انوسٹمنٹ جی ڈی پی کے تقریباً12فیصد ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے کم تناسب ہے۔ ماضی کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو سب سے بڑی کمی2023کے اعداد و شمار میں نظر آتی ہے۔ نجی سرمایہ کاری 9.1فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ پبلک سیکٹر سرمایہ کاری بھی تاریخ کی کم ترین سطح پر یعنی 2.9فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ 70کی دہائی میں یہ شرح 10.3فیصد تھی۔ اس کی بڑی وجہ بجٹ خسارے میں مسلسل اضافہ ہے۔ کئی دہائیوں سے قرضہ لیکر خسارہ پورا کرنا پڑتا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کا حصہ اس وقت جی ڈی پی کا 4.8فیصد ہے۔ اس وجہ سے حکومت کے پاس اتنی مالیاتی سپیس ہی موجود نہیں کہ وہ سرمایہ کاری یا فنانسنگ کر سکے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری بھی پاکستان میں بہت کم ہو چکی ہے۔2023کے دوران اس کی ویلیوجی ڈی پی کا 0.5فیصدرہ چکی ہے۔ اگر اس کا گزشتہ سالوں سے موازنہ کیا جائے تو 2005سے2010کے دوران اس کا تناسب2.6فیصد تک رہا ہے۔ اس کے بعد اس میں مسلسل کمی آئی ہے۔2014سے 2020کے عرصہ میں یہ 0.8فیصد رہی ہے۔اس کی بڑی وجہ سی پیک کے ذریعے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا آنا تھی۔ اس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہت بڑی کمی دیکھی گئی ہے اور اب یہ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری تاریخی طور پر بھی پاکستان میں کچھ زیادہ نہیں رہی ہے۔ 90کی دہائی میں بہت سے ملکوں کی ترقی میں فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ(ایف ڈی آئی)کا بہت بڑا کردار رہا۔ اس دوران ایک ہی بار 1995-96کے دوران پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری آئی، وہ بھی محض1.3ارب ڈالر سے زیادہ نہیں تھی۔ دیگر جنوب ایشیائی ملکوں کیساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ شرح بہت کم ہے۔ سرمایہ کاری کم ہونے کی وجہ سے بھی پاکستان میں ترقی کی شرح میں کمی نظر آرہی ہے۔ بنگلہ دیش، چین اور انڈیا کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا نمبر ان تمام ملکوں سے کم ہے۔ پاکستان میں کل سرمایہ کاری جی ڈی پی کے 12فیصد کے برابر ہے، بھارت میں 32فیصد، بنگلہ دیش میں 25فیصد سے بھی زیادہ ہے، گزشتہ سال یہ تناسب30فیصد رہا ہے، چین میں یہ تناسب43فیصد تک ہے۔
اس کی وجوہات کو اگر دیکھا جائے تو 2010کے بعد بیرونی سرمایہ کاری میں کمی نظر آئی ہے۔ اس دوران توانائی کا بحران عروج پر پہنچا ہے، سکیورٹی ایک بڑی وجہ رہی ہے، اس کے علاوہ سیاسی عدم استحکام نے بھی سرمایہ کاری کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔
بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس نہیں دیا جارہا ہے۔ دوسری طرف عام لوگ تو ہر چیز پر ٹیکس دے رہے ہیں، جسے اِن ڈائریکٹ ٹیکس کہا جاتا ہے۔ کون لوگ ٹیکس دیتے ہیں، کون لوگ ٹیکس نہیں دیتے؟ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کا عام آدمی سے کیا تعلق ہے؟ اور اگر واقعی ٹیکس نہیں دیا جاتا تو کون لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں اور جی ڈی پی کے تناسب سے کتنا ٹیکس جمع کیا جاتا ہے؟
فاطمہ ملک: یہ تاثر بالکل درست ہے کہ یہاں ٹیکس نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے کی شرح جی ڈی پی کے 10فیصد تک ہے۔ پاکستان کا موازنہ اگر پڑوسی ملکوں سے کیا جائے تو بھارت میں یہ شرح 19فیصد، چین میں 25فیصد اور ملائشیا میں 19.3فیصد ہے۔ پاکستان ان ملکوں سے بہت کم ریونیو جمع کرتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس تناسب میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ 2016میں یہ شرح12.1فیصد تھی۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس عرصہ میں معیشت بھی کمزور رہی ہے۔ ترقی کی شرح کم رہے گی تو ظاہر ہے معیشت میں ریونیو جمع کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوگی۔ تاہم اس کا اثر بہت منفی رہتا ہے۔ ٹیکس ریونیو میں کمی کی وجہ سے حکومت کے خسارے میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں بجٹ خسارے کا تناسب8فیصد تک رہا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ریونیو جمع کرنے کا تناسب بہت کم رہا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے پھر قرضے لینے پڑرہے ہیں۔ قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے اب پاکستان جی ڈی پی کا 4.8فیصد خرچ کر رہا ہے، جو صحت اور تعلیم پر خرچ کی جانے والی مجموعی رقم سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کلیکشن دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک صوبائی اور ایک وفاقی سطح ہے۔ جی ڈی پی کا 10فیصد جمع ہونے والے ٹیکس ریونیو میں وفاقی حکومت کا حصہ8.5فیصد ہے۔ صوبوں کا حصہ جی ڈی پی کا0.8فیصد ہے، باقی 0.7فیصد پٹرولیم لیوی کے ذریعے جمع کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق زراعت، پراپرٹی، ریٹیل بزنس اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو ٹیکس چھوٹ ملتی رہی ہے۔ زراعت جی ڈی پی کا 22فیصد ہے، جبکہ اس سیکٹر سے محض3فیصد ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ یہ ٹیکس اب صوبائی حکومتوں کے پاس آچکا ہے۔جو ٹیکس عائد کیا جاتا ہے وہ آج کے عہد کے مطابق بہت کم شرح ہے۔ سب سے بڑی وجہ پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں میں زمیندارانہ نظام ابھی تک موجود ہے۔ ایک فیصد ایسے زمیندار ہیں جو 22فیصد زرعی رقبے کی ملکیت رکھتے ہیں۔ یہ پاکستان کے زرعی شعبے کے پسماندہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے اندر زرعی انکم ٹیکس کی صلاحیت کا 10فیصد بھی پاکستان جمع نہیں کرتا۔ ریٹیل سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ18فیصد ہے، لیکن ٹیکس ریونیو میں اس کا حصہ محض4فیصد ہے۔ 35لاکھ تاجروں میں سے محض3لاکھ تاجر ٹیکس فائل کرتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ میں بھی ٹیکس کا ریٹ2سے 5فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ملٹری میں کنٹونمنٹ بورڈز پر بہت کم پراپرٹی ٹیکس چارج کیا جاتا ہے۔ سی ایس ڈیز پر جی ایس ٹی چارج ہی نہیں ہوتا۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنز پر بھی بہت کم انکم ٹیکس چارج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو سستے اِن پٹس(in puts) تک بھی رسائی دی جاتی ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے شعبے ہیں جنہیں ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔
2018کے علاوہ کوئی بھی ایسا سال نہیں ہے، جس میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے جی ڈی پی کے 1فیصد سے زیادہ ٹیکس ریونیو جمع کیا ہو۔ رواں مالی سال میں بھی یہ 0.8فیصد تک ہی ہے۔ بہت سے ایسے ٹیکس ہیں جو صوبائی حکومتوں کے ذمہ ہیں۔ انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ایکسائز ٹیکس سمیت دیگر بہت سے ٹیکس شامل ہیں۔ تاہم صوبائی حکومتوں کے ریونیو کا سب سے زیادہ حصہ سیلز ٹیکس سے ہی آتا ہے، جو سروسز پر چارج ہوتا ہے۔ یہ حکومتیں تقریباً64فیصد ریونیو سیلز ٹیکس سے جمع کرتی ہیں۔ اس کا عام آدمی پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔ ہرطرح کی آمدنی والا شخص یہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ اس طرح ٹیکس دینے میں امیر اور غریب کے مابین کوئی فرق ہی نہیں رہتا۔
لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان کا جو ٹیکس سسٹم ہے اس میں اصلاحات لائی جائیں۔ جن شعبوں کو چھوٹ دی گئی ہے انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ یہ مشکل فیصلے ہیں۔ ایسے فیصلے کرنے سے حکومتیں ڈرتی ہیں۔ چیلنجز زیادہ ہوتے ہیں اس لئے وہ نئے محاذ نہیں کھولتیں۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مشکل فیصلوں کی بجائے ٹیکس ریونیو کیلئے ان ڈائریکٹ ذرائع پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔
ٹریڈ کے حوالے سے بھی ہمیں تھوڑا سا بتائیں کہ پاکستان جو عالمی سطح پر تجارت کرتا ہے اس کی کیا صورتحال ہے؟ کیوں پاکستان مسلسل خسارے میں رہتا ہے اور اس خسارے سے کیسے باہر نکلا جا سکتا ہے؟
فاطمہ ملک:تجارتی خسارہ پاکستان کا کافی دہائیوں کا مسئلہ ہے۔ 2023میں درآمدات60ارب ڈالر تھیں جبکہ برآمدات35ارب ڈالر ۔ اس طرح خسارہ 25ارب ڈالر رہا ، جو جی ڈی پی کے تناسب سے 7.1فیصد ہے۔ 2023-24کی پہلی تین سہ ماہیوں کے دوران یہ خسارہ 15ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ توقع ہے کہ اس سال خسارہ پچھلے سال کی نسبت تھوڑا کم ہوگا۔ پاکستان میں کئی سالوں سے صنعت کے شعبے میں ترقی نہیں ہوئی۔ 1998میں صنعت کا جی ڈی پی میں حصہ 24فیصد تھا، جو 2023میں کم ہو کر18فیصد رہ چکا ہے۔ اب اس عرصہ کے دوران پاکستان نے تجارتی لبرلائزیشن کی پالیسیاں اپنائی ہیں۔ 1998میں پاکستان نے آئی ایم ایف کا سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام سائن کیا۔ اس پروگرام کی شرائط میں ایک ایجنڈا تجارت کو لبرلائزکرنا بھی شامل تھا۔ یہ پالیسی بہت سے ملکوں نے 80اور90کی دہائیوں میں اختیار کی۔ پڑوسی ملکوں نے بھی یہ پالیسیاں اپنائیں۔ اس دوران ان ملکوں کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ملکوں نے ترقی کی۔ تاہم پاکستان کے حوالے سے صورتحال الٹ ہی رہی۔ 90کی دہائی میں پاکستان کی اوسط برآمدات کی ویلیو جی ڈی پی کے 13فیصد کے برابر تھی، اس کے برعکس لبرلائزیشن اختیار کرنے کے بعد یہ کم ہو کر 2023میں8.2فیصد رہ چکی ہے۔ 2019سے2023کے دوران اوسط ویلیو7فیصد رہی ہے، جو خطرناک حد تک کم سطح ہے۔
درآمدات کی ویلیو انہی 5سالوں کے دوران15.3فیصد رہی ہے۔ برآمدات میں کمی کے ساتھ درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ٹیرف پروٹیکشن کم کی گئی، ڈیوٹیز کم کی گئیں، کرنسی بہت تیزی سے ڈی ویلیو ہوئی۔ اکنامک سائنس تو یہ کہتی ہے کہ جب ایکسچینج ریٹ بڑھتا ہے تو مصنوعات بیرون دنیا سستی ہو جاتی ہے اور برآمدات کی مانگ بڑھنی چاہیے، لیکن یہاں بھی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کی برآمدات کی کمپوزیشن کو دیکھیں تو جو کچھ پاکستان برآمد کر رہا ہے اس میں شروع سے آج تک کوئی بہت بڑا فرق نہیں آیا۔ پہلے بھی لو ویلیو ایڈڈ(low value added) مصنوعات برآمد کی جاتی تھیں، اب بھی صورتحال وہی ہے۔ پاکستان کے ٹاپ ٹین برآمدی آئٹمز ، جن کی ویلیو500ملین ڈالر سے زائد ہے، ان میں ٹیکسٹائل، یا فوڈ سے متعلق آئٹمز شامل ہیں۔ یہ لو ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس میں شامل ہوتے ہیں۔ بدلے میں جو کچھ درآمد کیا جا رہا ہے وہ ہائی ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس ہیں۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے ان میں لگژری گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ درآمدات کا75فیصد پاکستان کی کنزیومر بیسڈ پراڈکٹس سے متعلق ہے۔ 21فیصد کنزیومر گڈز ہیں، 54فیصد کنزیومر گڈز کو بنانے کیلئے خام مال کی صورت میں آتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا اکثریتی صنعتی شعبہ کنزیومر بیسڈ پراڈکٹس بنانے والی صنعت پر مبنی ہے۔ پاکستان پورے جنوب ایشیا میں ایسا واحد ملک ہے، جس میں صنعت کے شعبے کو بجلی سب سے زیادہ ہائی ٹیرف یعنی 16فیصد فی کلوواٹ پر ملتی ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش میں 11.4فیصد، سری لنکا میں 6.7فیصد، انڈونیشیا میں 7.4فیصد، ویتنام میں 7.7فیصد ہے۔ پاکستان میں صنعت کو سب سے مہنگی بجلی ملتی ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ ان ملکوں کے ساتھ مسابقت قائم نہیں کرپا رہا ہے، کیونکہ ان سے مہنگی اشیاء بناتا ہے۔
2006کے بعدسے پاکستان کا چین سے فری ٹریڈ معاہدہ دستخط ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے باہمی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم باہمی تجارت سے پاکستان کو 6.5ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہو رہا ہے۔ پاکستان چین سے 28فیصد درآمدات کر رہا ہے، جبکہ چین پاکستان سے 8فیصد درآمد کرتا ہے۔
تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلئے قلیل المدتی اور طویل المدتی حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے۔ قلیل مدتی حل یہ ہے کہ درآمدات کو کم کر دیا جائے۔ تاہم یہ آسان نہیں ہے، کیونکہ یہ معیشت ہی درآمدات پر انحصار کرتی ہے۔ جب درآمدات کم کرتے ہیں تو معیشت سست ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ کیلئے تو یہ پالیسی اپنائی جا سکتی ہے، لیکن لمبے عرصہ تک ایسا نہیں ہو سکتا۔ طویل مدتی پالیسی زراعت، صنعت اور سروس سیکٹر کو ماڈرنائز کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
سروسز کے شعبہ میں گزشتہ4سے5سالوں کے دوران سیاحت میں کچھ ترقی ہوئی ہے۔ انفراسٹرکچر کو بہتر کر کے سیاحت کی انڈسٹری کو کیش کیا جا سکتا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ویلیو ایڈیشن میں یہ بہت بڑا اضافہ کر سکتا ہے۔ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ آئی ٹی سروسز ایکسپورٹ کرتا ہے۔ بھارت کی آئی ٹی برآمدات پاکستان کی مجموعی برآمدات سے بھی زیادہ ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر میں بھی ہائی ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کر کے اس کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان اپنی برآمدات کو بڑھا سکتا ہے۔
صنعت، زراعت اور سروسز کے شعبے کو ماڈرنائز کئے بغیر اور ٹیکنالوجی کو استعمال کئے بغیر برآمدات کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔
کیا پاکستان کا دیوالیہ پن بیرونی قرضوں کی وجہ سے بھی ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی صورتحال کیا ہے؟
فاطمہ ملک: یہ درست ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ پن کی صورتحال میں بہت بڑی وجہ قرضے ہیں۔ پاکستان کے مجموعی قرضے اس وقت220ارب ڈالر ہو چکے ہیں، جو جی ڈی پی کا 91فیصد بنتے ہیں۔
130ارب ڈالر بیرونی قرضے ہیں، جو 58فیصد ہیں، باقی اندرونی قرضے ہیں۔ بیرونی قرضے جی ڈی پی کے 43فیصد ہیں، جبکہ اندرونی قرضے46فیصد ہیں۔ ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اندرونی قرضہ ہمیں مقامی کرنسی میں چاہیے ہوتا ہے اور اس کے ذرائع بھی مقامی ہی ہوتے ہیں۔ بیرونی قرضہ غیر ملکی کرنسی میں چاہیے ہوتا ہے اور اس کے ذرائع بھی غیر ملکی ہی ہوتے ہیں۔ واپسی کے طریقہ میں بھی فرق ہے۔ غیر ملکی قرض کا بوجھ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑے گا، جبکہ اندرونی قرض کا بوجھ ٹیکس ریونیو پر پڑے گا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان نے 1947سے2009تک62سال میں مجموعی طو رپر 107ارب ڈالر کا قرضہ لیا، جو جی ڈی پی کا 59.5فیصد ہے۔ اگلے 15سالوں کے دوران 113ارب ڈالر کے قرضے لئے گئے اور اب یہ جی ڈی پی کا 91فیصد بن چکے ہیں۔
2009سے قبل بیرونی قرضہ52ارب ڈالر تھا، جو جی ڈی پی کا 29فیصد بنتا ہے۔ اگلے 15سالوں میں بیرونی قرضہ 130ارب ڈالر ہو چکا ہے۔۔۔ یعنی 78ارب ڈالر قرض صرف 15سال میں لیا گیا، جبکہ 52ارب ڈالر تک پہنچنے میں 62سال لگے۔ گزشتہ15سالوں میں جو قرض لیا گیا اس میں بڑی تعداد نان پراجیکٹ لون کی تھی۔ 73فیصد قرضہ نان پراجیکٹ لون کی شکل میں لیا گیا۔ یہ خالصتاً بجٹ سپورٹ کیلئے لیاگیا قرضہ ہے۔ بیرونی قرض لینے کی نوعیت بجٹ خسارہ ہی رہی ہے۔
تجارتی خسارہ 2019سے2023تک 8فیصد رہا، بجٹ خسارہ بھی8فیصد ہی رہا ہے۔ اسی خسارے کو پورا کرنے کیلئے قرضوں میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ معیشت کے سٹرکچرل مسائل ہیں۔ پاکستان کے ٹیکس ریونیو اور زرمبادلہ کمانے کے ذرائع بہت محدود ہیں۔ ان 5سالوں کے دوران پاکستان کے جی ڈی پی کے تناسب میں ٹیکس ریونیو10.2فیصد جمع ہوا، جبکہ اسی عرصہ کے دوران جاری اخراجات 17فیصد رہے۔ ان اخراجات میں ترقیاتی اخراجات شامل نہیں ہیں۔
جاری اخراجات میں قرضوں کے سود کی ادائیگی اور ملٹری اخراجات ایسے ہیں جنہیں پورا کرنے کیلئے بھی ٹیکس ریونیو ناکافی رہا ہے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کیلئے قرض لیا جاتا رہا ہے۔ زرمبادلہ کمانے کے ذرائع بھی بہت محدود ہیں۔ تجارتی خسارہ گزشتہ پانچ سال میں اوسط8فیصد رہا۔ رواں سال اور آئندہ مالی سال کے دوران 65ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں، جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 9ارب ڈالر ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے۔ ان خساروں کو پورا کرنے کے علاوہ دیوالیہ پن سے نکلنا بہت مشکل ہے۔
قرضوں کے چکر سے پاکستان کیسے نکل سکتا ہے؟ کیا یہ نکل بھی سکتا ہے یا نہیں ؟
فاطمہ ملک: پاکستان کا اس چکر سے نکلنا یقینا بہت مشکل ہے۔ معیشت اتنا بڑا ریسورس پیدا ہی نہیں کر رہی کہ قرضوں سے نکلا جا سکے۔ پاکستان کئی سالوں سے جیو اسٹریٹیجک پوزیشن کو استعمال کرتا آیا ہے۔ 80کی دہائی میں افغانستان میں امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل رہا، 2000کے دوران ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ میں شامل رہا۔ اس کی وجہ سے بہت سے آسان شرائط پر قرضے ملتے رہے ہیں۔ غیر ملکی ترسیلات زر ملتی رہی ہیں۔ مشرف دور میں ترسیلات زر ریکارڈ سطح پر رہی ہیں، ایسی ہی صورتحال ضیاء دور میں بھی تھی۔ دونوں مرتبہ وجہ تھوڑی مختلف رہی ہے۔ 70ء کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ اور برطانیہ میں بڑی تعداد میں لیبر گئی تھی، جس نے 80کی دہائی میں ترسیلات زر بھیجنا شروع کیں۔ مشرف دور میں ایف ڈی آئی بہت بڑی تعداد میں آئی۔ یہ ایف ڈی آئی غیر پیداواری سیکٹر میں آئی، سٹاک مارکیٹ، پورٹ فولیو انوسٹمنٹ، بینک مرجرز وغیرہ کی صورت میں۔ تاہم ان چار پانچ سالوں میں بہت بڑی سرمایہ کاری آئی۔ اس عرصہ میں حکومت کو مشکل فیصلے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پیش آئی۔نہ ہی ٹیکس ریونیو بڑھانے کی کوئی کوشش کی گئی۔
2010کے بعد جیسے ہی جیو اسٹریٹیجک اہمیت میں کمی آنا شروع ہوئی، تو اس کے بعد غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی کا شدت سے سامنا کرنا پڑا۔
اپنا کوئی ریسورس مضبوط تھا نہیں، اس لئے کمرشل قرضوں کی طرف ہی جانا پڑا۔ اب بہت سنجیدگی سے اس پر کام کرنا ہوگا، تاکہ قرضوں کے چکر سے نکلا جا سکے۔ جیو اسٹریٹیجک اہمیت اور ضرورت میں کمی آئی ہے، لیکن جیو اکنامک پوزیشن کی اہمیت موجود ہے۔پاکستان کو جیو اکنامک پوزیشن کی طرف رخ کرنا پڑے گا۔ پاکستان قدرتی طور پر ایک ایسی جگہ پر موجود ہے جو وسطی ، جنوبی اور مغربی اشیاء کو آپس میں جوڑ سکتا ہے۔ مشرقی ایشیائی ملکوں اور بھارت کو پاکستان کے ذریعے وسطی اور مغربی ایشیا تک رسائی مل سکتی ہے۔ گوادر پورٹ سوئز کینال کے قریب ہے، یہ مغرب کے ساتھ ٹریڈ کرنے کا بہت موثر راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو کسی خاص بلاک کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کرنے ، یا روس و چین کے بلاک کے ساتھ لنک ہونے کی بجائے غیر جانبداررہ کر اپنی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن کو معیشت کیلئے استعمال کرنا ہوگا۔ پاکستان جب تک دنیا کی ضرورت نہیں بنے گا، پاکستان کی معیشت کو دوبارہ کھڑا ہونے کیلئے بہت مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اسی اصول پر چل کر طویل مدت میں پاکستان اس صورتحال سے باہر نکل سکتا ہے۔
چین کے قرضوں کی کیا صورتحال ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چین کے آئی ایم ایف اور مغرب سے لئے گئے قرضوں سے بہتر ہیں، کیونکہ چین سیاسی دباؤ نہیں ڈالتا۔ چین سے کتنے قرضے لئے ہوئے ہیں اور سیاسی نوعیت پر بھی بات کریں کہ کیا واقعی چین مغرب سے مختلف ہے؟ وہ آپ کی سیاست میں مداخلت کئے بغیر قرضے دیتا ہے؟
فاطمہ ملک: پاکستان اور چین کے قرضوں کا سوال بہت اہم ہے۔ اگر صرف قرضوں کا حجم دیکھیں تو پاکستان کے کل بیرونی قرضے 130ارب ڈالر ہیں، ان میں سے 40ارب ڈالر چین سے لئے گئے ہیں۔ یہ تقریباً کل قرضے کا 30فیصد بنتے ہیں۔ 2000سے 2022-23کے درمیان پاکستان چائنیز ڈویلپمنٹ فنڈ حاصل کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ پاکستان کو اب تک 70 ارب ڈالر کی فنڈنگ حاصل ہو چکی ہے۔ 28.4ارب ڈالر توانائی کے شعبہ میں ملا، 21.3ارب ڈالر بجٹ سپورٹ کیلئے ملا، 14ارب ٹرانسپورٹ اور سٹوریج کے شعبے میں پاکستان کو ملا۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کا جائزہ لیں تو ملٹی لیٹرل ڈونرز کے قرضوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک وغیرہ کے قرضو ں میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی جگہ بائی لیٹرل قرضوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں چین کے قرضے زیادہ ہیں۔ ملٹی لیٹرل ڈونرز کے قرضوں کے میچورٹی کا دورانیہ کم سے کم 15 سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود بھی 1.5کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ چین کے قرضوں کی میچورٹی کا دورانیہ 9.1سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود 3.72فیصد ہے جو کہ ملٹی لیٹرل قرضوں سے بہت مہنگے ہیں۔ 2013سے 2017کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ فنڈنگ چین سے ملی، جو تقریباً36.2ارب ڈالر تھی۔ اس کا 52.8فیصد انرجی سیکٹر میں گیا۔ 2018کے بعد پاکستان کو 19.6ارب ڈالر کی فنڈنگ ملی، اس کا 61.3فیصد بجٹ سپورٹ میں خرچ ہوا۔
اس کا سیاسی پہلو بہت اہم ہے۔اس وقت وزیراعظم شہباز شریف ٹیم کے ہمراہ چین گئے ہوئے ہیں۔ اس میں سی پیک کا دوسرا فیز شروع کرنا اہم مقصد ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن پر بات ہونی ہے۔ سب سے اہم چیز چینی پاور پلانٹس کمپنیوں کے آؤٹ اسٹیڈنگ واجبات ادا کئے جانے ہیں،جو 1.8ارب ڈالر رقم بنتی ہے۔ یہ واجبات ادا کرنے کیلئے جنوری میں بھی چینی بینک سے 600ملین ڈالر کے قرض لینے کی کوشش کی گئی، لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ سی پیک کے کنٹریکٹ میں پاور کمپنیوں کے واجبات ادا کرنا شامل ہے۔ وزیر خزانہ کو بھی شہباز شریف نے چین جانے سے پہلے یہ ہدایات کی تھیں کہ 200ارب روپے کے واجبات ادا کئے جائیں، جن میں سے 70ارب روپے ہی ادا کئے جا سکے۔
دوسرا اہم پہلو ڈیٹ رول اوور لینا ہے اور بجٹ سپورٹ بھی حاصل کرنا ہے۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ نیا بیل آؤٹ پیکج، جسے ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلٹی کہا جاتا ہے، لینا چاہتاہے۔ پاکستان جب تک اس پیکج کے اندر رہے گا ، جو تین سال کا دورانیہ ہے، اس دوران پاکستان چین سے یہ مدد حاصل کرے گا۔ ان تینوں پوائنٹس پر راضی کرنے کی کوشش کرے گا۔
اگر یہ نہ ہو سکا تو پاکستان کو آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج نہیں مل سکے گا۔ اس طرح مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
اب چین اس پر کیسے رد عمل کرتا ہے، وہ بزنس مین کی سوچ کے تحت کام کرتا ہے۔ وہ اپنا نقصان کیوں برداشت کرے گا، اور کیوں راضی ہوگا۔ یہ اس دورے کے نتائج کے طور پر دیکھنا پڑے گا۔