حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دو وزراء نے حال ہی میں جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے حق میں خصوصی اور ہنگامی ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے اس آرڈیننس کو امن و امان کے لیے انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کو شرپسند اور ذاتی مفادات کی وجہ سے امن و امان تباہ کرنے والے عناصر قرار دیا ہے۔ راولاکوٹ میں پر امن مظاہرین پر پولیس تشدد کی تمام تر ذمہ داری بھی مظاہرین پرعائد کرتے ہوئے اسے خطے کا ماحول خراب کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ تمام سیاسی جماعتوں (اسمبلی میں موجود) کا متفقہ آرڈیننس ہے اور جلد اس کو اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔
ویڈیو پیغام جاری کرنے والے ان وزراء، ماجد خان اور اکمل سرگالہ، کا تعلق مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان سے ہے۔ دونوں ہی جعلی ڈومیسائل کے الزامات کی زد میں بھی ہیں۔ یعنی جعل سازی کے ذریعے اس خطے کا اقتدار انجوائے کر رہے ہیں۔ ان دونوں کی کوئی پارٹی نہیں ہے۔ اقتدار میں پہنچنے والی کوئی بھی پارٹی ان کے بغیر کبھی مکمل ہی نہیں ہوتی اور یہ شاید ہی کبھی اپوزیشن کا حصہ رہے ہوں۔
درحقیقت یہ اس 12 رکنی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں اس خطے کے اقتدار پر سامراجی تسلط کے اوزار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 2018ء میں ہونے والی 13ویں آئینی ترمیم سے قبل یہ 12 رکنی گروہ غیر آئینی طریقے سے اس خطے پر مسلط تھا اور ہر حکومت بنانے اور گرانے میں سامراجی اداروں کے لیے اوزار کا کام کرتا تھا۔ مظفرآباد کے کچھ وکلاء نے ان 12 نشستوں کو عدالت میں چیلنج کیا تو طاقتوروں نے عدالتی فیصلے سے قبل ہی ایکٹ 1974ء میں ہونے والی 13ویں ترمیم میں انہیں بھی آئینی تحفظ دے دیا۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت میں یہ بات بہت ہی تواتر سے کہی جاتی ہے کہ ’نو ری پریزنٹیشن ود آؤٹ ٹیکسیشن‘، یعنی جو ٹیکس نہیں دیتا، اسے نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہے۔ تاہم یہاں مہاجر ہونے کے جعلی کاغذات بنا کر بھی نمائندگی ہی نہیں، بلکہ اقتدار کے فیصلے کرنے کے اختیارات انجوائے کیے جا رہے ہیں۔
تحریک آزادی اس خطے میں 76 سال سے ایک ایسا مذاق بنا دیا گیا ہے کہ اس کے نام پر ہر طرح کی لوٹ مار بھی جاری ہے اور نوآبادیاتی قبضے کو بھی دوام اسی تحریک آزادی کے نام پر ہی بخشی جا رہی ہے۔ تحریک آزادی کے نام پر ہی طفیلی کردار کی حامل مقامی حکمران اشرافیہ کو پروان چڑھایا گیا ہے، جو اپنے ہی طبقے اور قوم کے لوگوں کی غلامی کو جسٹیفائی کرنے میں سامراج سے بڑھ کر خدمات فراہم کر رہی ہے۔ ماضی بعید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غلام مالکان غلاموں کو غلاموں کے ذریعے سے ہی کنٹرول کرتے تھے۔ اگر وہ غلام ان غلام مالکان کے ساتھ مل کر باقی غلاموں کی غلامی کو قائم نہ رکھواتے تو ان کا زیادہ دیر تک آقا برقرار رہنا ممکن نہ ہوتا۔
خیر بات ہو رہی تھی ماجد خان اور اکمل سرگالہ اور ان جیسے دیگر 10 ممبران کی۔ تحریک آزادی کے نام پر مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کو جموں کشمیر کے پاکستانی زیر انتظام حصے میں حق نمائندگی اور ملازمتوں میں کوٹہ فراہم کر کے ایک منفرد طریقے کی حکمران اشرافیہ ترتیب دی گئی ہے۔ ایک مقامی طفیلی حکمران اشرافیہ سامراجی اقتدار کو جاری رکھنے میں ممد و معاون تھی، ساتھ ہی اس مقامی حکمران اشرافیہ کو بھی قابو میں رکھنے کے لیے 26 فیصد مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کی نشستیں بھی رکھ لی گئیں۔ ساتھ ہی ملازمتوں میں 19 فیصد کوٹہ متعین کر کے ان افسران کی تعیناتی کی راہ ہموار کر دی گئی، جو مقامی حکمران اشرافیہ یا شہریوں کے مفادات کے تحفظ کی بجائے براہ راست سامراجی احکامات کی بجاآوری کو یقینی بنائیں۔
یہی پر بس نہیں ہوئی۔ لینٹ افسران بھی تو ہیں، جنہیں ان سب سے اوپر اصلی اقتدار مہیا کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کی بیوروکریسی سے ڈپیوٹ ہونے والے وہ افسران ہیں، جو اس خطے کے مالی اور انتظامی ڈھانچے کے فیصلہ ساز ہیں۔ یہ سب ایک ایسے عبوری آئین کے ماتحت قائم ہونے والا ڈھانچہ ہے، جو اس خطے سے جعلی طریقے سے ہی سہی لیکن منتخب ہونے والے نمائندوں نے بھی نہیں بنایا۔ وہ عبوری آئین بھی بلکہ سامراجی طور پر مسلط کیا جانے والا بدترین نوآبادیاتی ایکٹ ہے، جسے تیار کر کے آدھے گھنٹے کی کارروائی میں ان ممبران اسمبلی سے دستخط کروا کر منظور کروایا اور مسلط کیا گیا تھا۔
اس بدترین عبوری آئین، یعنی ایکٹ1974ء میں بھی اس خطے کے شہریوں کو سامراج نوازی کے بغیر کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر بھی اکتفا کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا اور اب چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر احتجاج ریکارڈ کروانے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس بنیادی طور پر ایک ایسا کالا قانون ہے، جو شہریوں سے سانس لینے کا حق بھی چھیننے کے مترادف ہے۔ بدترین آمریت مسلط کرنے کے اس راستے کی توجیحات بھی ان افراد سے پیش کروائی جا رہی ہیں، جو اس خطے میں رہتے بھی نہیں ہیں۔
یہ وزراء صرف مظفرآباد اسمبلی میں ٹی اے ڈی اے حاصل کرنے آتے ہیں۔ ماجد خان وزارت خزانہ کے ساتھ چپکے رہنے کی وجہ کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں رقم کرنے والے الزامات کی زد میں ہیں، جبکہ اکمل سرگالہ نے اس خطے کے جنگلات کی سمگلنگ اور بیوپار میں ایک الگ ہی نام کما رکھا ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار میں لت پت یہ بہروپیے، سامراجی ایجنٹ اور جعل ساز اس خطے کے سیاسی کارکنوں کو جینے کا ڈھنگ سکھانے کے دعوے کر رہے ہیں۔
یہ آرڈیننس اسمبلی سے منظور کرنے کے لیے ووٹ دینے والا ہر فرد اس خطے کے عوام کا مجرم اور سامراج کا سہولت کار ہوگا۔ اس قابل نفرت عمل میں شریک ہونے والا ہر فرد اس خطے کے لوگوں کے لیے قابل نفرت اور قابل حقارت ہوگا۔ جب تک یہ آرڈیننس باقی ہے، احتجاج، احتجاج اور صرف احتجاج کا ہی راستہ اپنایا جائے گا۔ اپنی مرضی سے سوچنے اور اظہار کرنے کا حق چھیننا انسان سے اس کی انسانیت چھین کر دیگر بے زبان جانوروں کی صف میں لاکھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اس حق پر ڈاکہ ڈالنے والا ہر فرد انسانیت دشمن ہی قرار پائے گا۔