لاہور (پ ر) پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے جاپان کے تین میگا بینکوں کو عوام اور ان کے شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دینے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈی کاربنائزیشن پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جبکہ حقیقت میں دنیا کے سب سے بڑے فوسل فیول منصوبوں کی فنڈنگ کررہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی، لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور کروفٹر فاؤنڈیشن نے میزوہو فنانشل گروپ، مٹسوبشی یو ایف جے فنانشل گروپ (ایم یو ایف جی) اور سومیتومو مٹسوئی فنانشل گروپ (ایس ایم بی سی) سے مطالبہ کیا کہ’جھوٹ اور دھوکہ دہی بند کرو!‘۔ اسی طرح انڈونیشیا، بھارت، بنگلہ دیش اور فلپائن میں علامتی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جہاں جاپان کی مالی اعانت سے چلنے والے بڑے فوسل گیس منصوبوں کی میزبانی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ جاپانی میگا بینکوں کو ان اقدامات کو اپنے ماحولیاتی وعدوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہئے۔ گیس منصوبوں اور سی سی یو ایس اور امونیا کو فائرنگ جیسے گمراہ کن منصوبوں کی فنڈنگ جاری رکھتے ہوئے ڈی کاربنائزیشن کا وعدہ کرنا منافقت ہے۔
اے پی ایم ڈی ڈی کے کنٹری اسٹاف ضیغم عباس نے کہا کہ نیٹ زیروہ اہداف کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ میگا بینک اور کارپوریشنز اپنے کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے قابل تجدید توانائی کی فنڈنگ پر توجہ دیں۔ جاپانی بینک ایشیا میں فوسل فیول کے سب سے بڑے فنڈرز میں سے ہیں۔
حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صرف سال 2023 کے لئے میزوہو فنانشل نے دنیا بھر میں گیس پاور کی توسیع کرنے والی کمپنیوں کو 5.7 بلین ڈالر کی رقم فراہم کی، جس سے یہ گیس منصوبوں کا نمبر 1 فنانسر بن گیا۔ دوسری جانب ایم یو ایف جی (512 ملین ڈالر) اور ایس ایم بی سی (281 ملین ڈالر) بالترتیب پہلے اور تیسرے نمبر پر رہے، انتہائی گہرے پانی کے تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیوں کے فنانسرز کے طور پر۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب گیس منصوبوں کی فنڈنگ کی بات آتی ہے تو تینوں جاپانی میگا بینک، جے پی مورگن چیز، سٹی گروپ اور بینک آف امریکہ جیسی سرفہرست عالمی بینکوں سے آگے نکل گئے ہیں۔
گلوبل انرجی مانیٹر کی جانب سے گزشتہ دسمبر میں جاری ہونے والے ایک بریفنگ پیپر میں ایل این جی کی زائد سپلائی کے خلاف خبر دار کیا گیا تھا اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کو ”خطرناک” قرار دیا گیا تھا۔ ایل این جی کی درآمد میں ایشیا اور یورپ سرفہرست ہیں۔