پاکستان

زرعی زمین چین، سعودی عرب کو لیز پر دینا پاکستان پر ’بین الاقوامی قبضہ‘ ہے

ڈاکٹر مظہر عباس

قریب ایک دہائی قبل چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے آغاز کے وقت کچھ لوگوں نے خدشات ظاہر کیے تھے کہ یہ منصوبہ ایک جدید طرز کے اقتصادی سامراج کو جنم دیگاجس کے پیچھے بنیادی وجہ یہ تھی کہ سی پیک معاہدوں کی شرائط و ضوابط کی تفصیلات والے دستاویزات تک اراکینِ پارلیمنٹ سمیت محققین اور صحافیوں کی رسائی ناممکن تھی۔ اسی وجہ سے سی پیک کا موازنہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی سامراج سے کیا گیا۔

یکم مارچ 2022ء کو پنجاب کی کابینہ نے سی پیک کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے لیے چین کو سرکاری زمین لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پنجاب کے اس فیصلے نے کچھ پرانے خدشات کودوبارہ جنم دیا ہے۔

اس فیصلے کے ناقدین دلیل دیتے ہیں کہ ایک تو یہ واضح نہیں ہے کہ سی پیک معاہدہ سرمایہ کاری ہے یا قرض۔ دوسرا یہ کہ حکومت سرکاری فورمز پر یہ تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ سی پیک کے منصوبے کس حد تک موثر اور مفید ہیں۔

اس کے برعکس سی پیک کے حمایتی اسے گیم چینجر قرار دیتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ چین کی اقتصادی امداد کا فلسفہ، برطانیہ کے برعکس، تجارتی بنیاد پر نہیں ہے۔ اور اس کی بنیاد فوجی طاقت کے بجائے معاشی ترقی اور خوشحالی پر ہے۔ دوسرا یہ کہ موجودہ پاکستان، قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان کے برعکس ”سونے کی چڑیا“ نہیں ہے۔ اور تیسرا یہ کہ عدلیہ اوردوسرے ریگولیٹری اداروں کی طرف سے فراہم کردہ چیکس اینڈ بیلنسز کافی حد تک موجود ہیں جو کہ قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں نہیں تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی سربراہی میں پنجاب کابینہ نے چین کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے 500 سے 5000 ایکڑ تک اراضی لیز پر دینے کی منظوری دیتے ہوئے وزارتی کمیٹی کو لیز رولز وضع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کابینہ کے ارکان نے یہ فیصلہ کرتے وقت دلیل دی ہے کہ اس سے زراعت کو جدید بنانے، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

جبکہ ناقدین اس کے برعکس سوچتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو زمین لیز پر دینے سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے زرعی بحران مزید بڑھے گا۔ یہ کسانوں کو زمین کے حق سے مزید محروم کر دے گا اور اس سے زراعت میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے سیکرٹری فاروق طارق کہتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر خوراک کی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔

کارپوریٹ فارمنگ کے لیے چینی کمپنیوں کو زمین لیز پر دینے کی تجویز سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دورِ حکومت میں پیش کی گئی تھی۔ سی پیک روٹ کے ساتھ ساتھ سات زرعی اقتصادی زونز کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تاکہ اعلیٰ قدر والی زراعت اور متعلقہ کاروبار کو فروغ دے کر ترقی کے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔

چینی کمپنیوں کو صنعتی، کاروباری اور دیگر کارپوریٹ استعمال کے لیے زمین لیز پر دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دسمبر 2021ء میں میڈیا رپورٹس نے انکشاف کیا تھا کہ پنجاب حکومت پہلے ہی سی پیک کے تحت چینی کمپنیوں کو 1.5 ملین ایکڑ سرکاری اراضی الاٹ کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔ فیصلے کے بیان کردہ مقاصد یہ تھے:

ا) سرکاری اراضی کا استعمال کرکے محصول میں اضافہ کرنا

ب) غیر کاشت شدہ سرکاری زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لیے چین کی مدد کی فہرست میں شامل کرنا

ج) نئے تحقیقی مراکز کا قیام اور پہلے سے موجود مراکز کو مزید بہتر بنانا

چین واحد ملک نہیں ہے جس کو زرعی زمین لیز یا فروخت کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ لیز اور فروخت کی پیشکش دوسرے ممالک کو بھی کی گئی ہے، خاص طور پر خلیجی ممالک کو جو خوراک کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں اور اپنی سپلائی کو محفوظ بنانے کے لیے ترقی پذیر ممالک میں کھیتی باڑی کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان میں منافع خور پالیسی سازوں نے قومی معیشت کے لیے کارپوریٹ طرز کی ترقی کے لیے نہ صرف مانگ کی ہے بلکہ منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔

یہ جانکاری حاصل کرنا آسان نہیں ہے کہ سرمایہ کاروں کو کتنی زمین دستیاب ہے یا اب تک کتنے ہیکٹر فروخت یا لیز پر دی گئی ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات، جو اپنی خوراک کا تقریباً 85 فیصد درآمد کرتا ہے، نے اپنی خوراک کے درآمدی اخراجات کو کم کرنے کی حکمت عملی کے تحت 2008ء میں سندھ میں 12,140 ہیکٹر اور بلوچستان میں 2009ء میں 16,187 ہیکٹر زمین لیز پر حاصل کی تھی۔ علاوہ ازیں، پاکستان نے اپریل 2008ء میں تقریباً 500,000 ایکڑ زرعی زمین سعودی عرب کو لیز پر دی تھی۔

کھیتی باڑی کے رجحان میں تیزی 2008ء کے غذائی بحران کی وجہ سے آئی، جس نے ان ممالک کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا کر دی جو خوراک کی درآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان میں خلیجی ممالک کی دلچسپی نے 2008ء میں رفتار تیز کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ: ا) خلیج میں زرعی توسیع کے امکانات کافی محدود ہیں۔ اور، ب) پاکستان کو فصلوں کی پیداوار بالخصوص گندم اور چاول میں تقابلی برتری حاصل ہے۔

انیسویں اور بیسویں صدی کی بہت سی یورپی معیشتوں کے برعکس، اکیسویں صدی کی ابھرتی ہوئی معیشتیں کالونیوں کے وسائل کے بجائے اپنے وسائل پر تعمیروترقی کر رہی ہیں۔ تاہم، انھیں اب بھی خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں اپنی آبادی کے لیے خوراک پیدا کرنے کے لیے سستے سودے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لہٰذا، دوسرے ممالک میں غذائی اجناس تیار کرنا ایک مقبول رجحان بن گیا ہے جسے کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ فنانشل ٹائمز اور اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے سربراہ جیکس ڈیوف (1994-2011ء) نے اس رجحان کو ”نو استعماریت“ کا نام دیا ہے۔ کسانوں کی حامی تنظیم ’GRAIN‘ نے اسے ”بین الاقوامی قبضہ“ قرار دیا ہے۔

اس طرح سے اپنے غذائی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امیر معیشتیں طویل مدت میں اپنے غذائی عدم تحفظ کو دوسری قوموں کو برآمد کر سکتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، غریب ریاستیں اپنے ہی بھوکے لوگوں کی قیمت پر امیروں کے لیے غذائی اجناس تیار کر رہی ہوں گی۔

اس ضمن میں پاکستان کو محتاط رہنا چاہیے اور اپنی زرعی زمین کا زیادہ حصہ غیر ملکی سرمایہ کاروں یا کمپنیوں کو لیز پر نہیں دینا چاہیے۔ بصورتِ دیگر، اس کا انجام ایک جدید دور کی کالونی کے طور پر ہو سکتا ہے جسے خوراک کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Dr. Mazhar Abbas
mazharabbasgondal87@gmail.com | + posts

مصنف نے شنگھائی یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں لیکچرار ہیں۔