خبریں/تبصرے

عراق: لڑکیوں کی شادی کی عمر 9 سال مقرر کرنے کا بل متعارف، انسانی حقوق تنظیموں کا اظہار تشویش

لاہور(جدوجہدرپورٹ)عراق کی پارلیمنٹ میں شادی کی عمر کم کر کے 9 سال کرنے کا بل متعارف کرایا گیا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

‘اے ایف پی’ کے مطابق یہ بل شہریوں کو خاندانی معاملات پر فیصلہ کرنے کے لیے مذہبی حکام یا سول عدلیہ میں سے کسی ایک کا اپنی مرضی سے انتخاب کرنے کی اجازت دے گا تاہم ماہرین اور ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس قانون کے لاگو ہونے سے وراثت، طلاق اور بچوں کی تحویل کے معاملات میں حق تلفی کا اندیشہ ہے۔

انہوں نے سب سے زیادہ تشویش کا اظہار لڑکیوں کی شادی عمر پر کیا جو 1959 کے ذاتی حیثیت کے قانون میں 18 سال مقرر کی گئی ہے لیکن اس قانون کے لاگو ہونے سے یہ عمر بھی گھٹ کر نصف تک کیے جانے کا اندیشہ ہے البتہ ترمیم اور تبدیلیوں کی حمایت کرنے والے قانون سازوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے، یونیسیف کے مطابق عراق میں 28 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی محقق سارہ سنبر نے کہا کہ اس قانون کی منظوری سے یہ ظاہر ہو گا کہ کوئی ملک آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔

1959 کی قانون سازی عراقی بادشاہت کے خاتمے کے فوراً بعد کی گئی تھی اور خاندانی امور کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق مذہبی حکام سے ریاست اور اس کی عدلیہ کو منتقل کر دیا گیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ اس ترمیم کے بعد یہ عمل متاثر ہو گا اور یہ ملک میں شادی اور خاندانی مسائل کے حل کے لیے شیعہ اور سنی مذہبی قوانین کے نفاذ کی اجازت دے گی۔جولائی کے آخر میں یہ مجوزہ ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی لیکن متعدد قانون سازوں کی جانب سے تحفظات کے اظہار کے بعد ان مجوزہ تبدیلیوں کو واپس لے لیا گیا تھا۔

کابینہ میں موجود ملک کے طاقتور اہل تشیع طبقے کی حمایت کے بعد یہ بل پیش کرنے والے 4 اگست کے اجلاس میں دوبارہ منظرعام پر آئے تھے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوں گی یا نہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے عراق میں محقق رضا صالحی نے کہا کہ مجوزہ تبدیلیوں کو روکا جانا چاہیے۔

ملک کے آئینی امور کے ماہر زید العلی نے کہا کہ 1959 کے قانون نے ہر فرقے کو زیادہ ترقی پسند اصولوں کو اپنایا جس سے مذہبی طبقے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

2003 میں عراق پر امریکی حملے اور صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد سے اس قانون کو منسوخ اور روایتی اسلامی قوانین کو دوبارہ اپنانے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔

زید العلی نے کہا کہ یہ نئی ترامیم مردوں کو اپنی مرضی کے مطابق امور کو انجام دینے کا حق دے رہی ہیں، یہ بل انہیں مزید غلبہ فراہم کرے گا۔

ہیومن رائٹس واچ کی محقق سارہ سنبر نے کہا کہ مذہبی حکام کو شادی کا اختیار دینے کی حامل یہ ترامیم عراقی قانون میں مساوات کے اصول کو کمزور کردے گی، یہ نو سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کو بھی قانونی قرار دے سکتا ہے جس سے بے شمار لڑکیوں کا مستقل تاریک ہو سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے رواں سال کے اوائل میں جاری اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ عراق میں مذہبی رہنما موجودہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر سال ہزاروں غیر رجسٹرڈ شادیاں کرتے ہیں جن میں بچوں کی شادیاں بھی شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بچوں کی شادیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں، لڑکیوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع سے محروم کرتی ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts