راولاکوٹ (حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت نے اساتذہ کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے 6 وزرا پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی ہے۔ یہ کمیٹی اساتذہ کے ساتھ مذاکرات کر کے ان کے مطالبات پر عملدرآمد کیلئے بااختیار ہو گی، سیکرٹری تعلیم سکولز معاونت کرینگے اور کمیٹی کی سفارشات پر حکومت عملدرآمد کرے گی۔ مرکزی صدر تاصف شاہین نے دوران حراست ہی ایک ویڈیو پیغام میں لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اتوار اور پیر کے روز حکومت نے سکول ٹیچرز آرگنائزیشن کے کئی روز سے جاری احتجاج کے خلاف ریاست گیر کریک ڈاؤن کر کے سینکڑوں مرد و خواتین اساتذہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پیر کے روز ہزاروں اساتذہ نے مختلف اضلاع میں احتجاجی دھرنے دیئے اور جلوس نکالے۔ باغ، ہجیرہ، عباسپور، بلوچ، سہنسہ، راولاکوٹ، دھیرکوٹ سمیت متعدد شہروں میں اتوار اور پیر کے روز سینکڑوں اساتذہ کو گرفتار کیا گیا۔
یہ اساتذہ سکیل اپ گریڈیشن کے 11 سال پہلے منظورشدہ مطالبہ پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے احتجاج کر رہے تھے۔ اساتذہ نے پیر کے روز دارالحکومت مظفر آباد کی طرف احتجاجی لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ لانگ مارچ کو روکنے کیلئے حکومت نے سکول ٹیچرز آرگنائزیشن کو کالعدم قرار دیکر اس کی رجسٹریشن منسوخ کی۔ تمام شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر کے اساتذہ کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ ٹیچرز آرگنائزیشن کے صدر اور سیکرٹری جنرل کو ملازمت سے معطل کرتے ہوئے سپیشل پاور ایکٹ کے تحت ملازمت سے برطرفی کی کارروائی شروع کی گئی۔ اس کے علاوہ 300 سے زائد مرد و خواتین اساتذہ کی فہرستیں مرتب کر کے ان کو ملازمتوں سے برطرف کئے جانے کی کارروائیوں کا بھی آغاز کیا گیا۔
تاہم اساتذہ نے پیر کے روز تمام تر ریاستی جبر اور پابندیوں کے باوجود سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ سیاسی و سماجی تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے اساتذہ کے احتجاج کی حمایت کی گئی، جبکہ گرفتاریوں اور ریاستی جبر کی مذمت کی گئی۔
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (پی ٹی یو ڈی سی)، پیپلز ریولوشنری فرنٹ (پی آر ایف) اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (جے کے این ایس ایف) کے علاوہ پاکستان میں محنت کشوں کی تنظیموں کے اتحاد آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز لیبر تحریک کی جانب سے اساتذہ کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور اساتذہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔
پی ٹی یو ڈی سی، پی آر ایف اور جے کے این ایس ایف کے رہنماؤں نے اساتذہ کے احتجاجی مظاہروں میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے اساتذہ سے اظہار یکجہتی کیا اور ان کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں لڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔
دریں اثنا حکومت نے احتجاج کو توڑنے کیلئے گرفتاریوں کے علاوہ مختلف اساتذہ رہنماؤں پر دباؤ ڈال کر ان سے احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کروایا۔ ماضی میں جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ ٹیچرز آرگنائزیشن کے قلم پینل کے عہدیداران نے ریاست کے ساتھ ساز باز کر کے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ احتجاج ختم نہ کرنے والے رہنماؤں کو گرفتار کر کے پہلے احتجاج کو پونچھ ڈویژن تک محدود کیا گیا اور بالآخر مرکزی صدر نے دوران حراست ہی ایک مختصر ویڈیو پیغا م میں احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
بعدازاں رہائی کے بعد انہوں نے دیگر اساتذہ کے ہمراہ ایک ویڈیو کانفرنس میں یہ کہا کہ ان کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے وزراء کی ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ ان کے ساتھ مذاکرات کے بعد تمام مطالبات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ تنظیم کی رجسٹریشن بحال کرنے سمیت اسیران کو رہا کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
تاہم دوسری طرف حکومت نے ایمپلائزایسوسی ایشن ریگولیشن اینڈ رجسٹریشن ایکٹ 2016ء میں مزید ترامیم تجویز کرتے ہوئے ملازمین کے احتجاج پرمزید سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اب احتجاج کیلئے اکسانے پر بھی ملازم کو نوکری سے برطرف کر دیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پراحتجاج ریکارڈ کروانے پر بھی برطرفی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہڑتال، دفاتر کی تالہ بندی اور احتجاج کرنے پر بھی ملازمت سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برطرفیوں کے خلاف اپیل کا حق بھی محکمانہ طور پر ہی دیا جائے گا۔