جدوجہد رپورٹ(پ ر) آج مورخہ 22 اگست 2024ء منعقد ہونے والے ایک جلسہ عام میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس (جیک)نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان لاکھوں عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔
مقررین نے ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور کاروباری، زرعی اور صنعتی اشرافیہ کے درمیان خفیہ اتحاد پر افسوس کا اظہار کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ دولت کی غیر مساوی تقسیم اور ایک صارفیت پر مبنی معیشت کی صورت میں نکلا ہے جس کے باعث لاکھوں لوگوں کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
شرکا میں جیک کے کنوینر عرفان مفتی، ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق، حقوق کے کارکن محمد تحسین، ماہرین تعلیم فہد علی اور سلیمہ ہاشمی، مزدوروں کے حقوق کے کارکن لطیف انصاری، فاروق طارق اور روبینہ شکیل، ہیومن رائٹس واچ کے نمائندے سروپ اعجاز، اور طلبہ کے حقوق کے کارکن علی رضا اور مزمل کاکڑ شامل تھے۔
شرکا نے ایک قرار داد منظور کی جس میں اشیائے ضروریہ جیسے کہ خوراک، ایندھن اور ضروری ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کو بجلی، گیس، پینے کے پانی، انٹرنیٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ پر سبسڈی دی جانی چاہیے۔
اگرچہ گزارے کے قابل اجرت (لِونگ ویج) مقرر کی جانی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تمام گھرانے مناسب معیار زندگی اپنانے کے قابل ہوسکیں، تاہم اس حوالے سے ایک قلیل مدتی اقدام یہ ہونا چاہئے کہ کم از کم اجرت میں افراط زر کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے لیے منصفانہ اور مساوی اجرت کو یقینی بنانے کے لیے بھی فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
موجودہ سماجی تحفظ کے پروگراموں میں توسیع کی جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کمزور گھرانے غربت کی لکیر سے نیچے نہ جائیں۔ پنشن، صحت کی سہولیات اور بے روزگاری سے متعلق فوائد کا حق سب کو دستیاب ہونا چاہیے۔
تعلیم اور صحت کے سالانہ بجٹ کو جی ڈی پی کے کم از کم 4 سے 6 فیصد تک بڑھایا جانا چاہئے تاکہ حکومت عالمی معیار کی مفت پرائمری تعلیم، اسکولوں میں مفت کھانا، سستی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم، اور صحت کی مفت سہولیات کی فراہمی کے قابل ہوسکے۔
ریاست کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو تنازعات یا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔ حکومت کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ کارکنوں کے ساتھ ڈسپوزایبل اشیاء جیسا سلوک نہ کیا جائے اور یہ کہ تمام لوگوں کے محفوظ حالاتِ کار کے حق کا تحفظ کیا جائے۔
بالواسطہ ٹیکسز کی شکل میں عائد کیے گئے غیر منصفانہ ٹیکسز کو ختم کرکے ان کی جگہ ترقی پسند ٹیکس نافذ کیے جائیں۔