اسرائیل دوترا
(نوٹ: یہ انٹرویو پرتگالی زبان میں برازیل کی ایک ویب سائٹ ’Revista Movemento‘ کیلئے اسرائیل دوترا نے کیا، جسے بعد میں آسٹریلین جریدے ‘لنکس’ کے انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے شائع کیا۔ انٹرویو کا اردو ترجمہ ‘جدوجہد ’کے قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔)
عالمی سرمایہ داری کے سب سے زیادہ متحرک خطوں میں سے ایک ہونے کے باوجود برازیل کے عوام جنوبی ایشیا کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیش میں حالیہ طلبہ بغاوت نے اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ اس خطے میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت جیسے بڑی آبادی والے ملک شامل ہیں۔
اس خطے کی سیاست کے بارے میں مزید جاننے کیلئے اسرائیل دوترا نے فاروق طارق کا انٹرویو کیا، جو پاکستانی بائیں بازو کے بڑے ناموں میں سے ایک ہیں۔ وہ فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما بھی ہیں، جن کے ساتھ سوشلسٹ لیفٹ موومنٹ نے کئی سالوں سے برادرانہ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔ سوشلسٹ لیفٹ موومنٹ کے سرکردہ اراکین پیڈرو فواین تس اور لوسیانا جینرو پاکستان میں ہونے والے پروگراموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ انٹرویو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
کیا آپ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟
فاروق طارق: پاکستان آج ایک طرف گہرے ہوتے معاشی بحران اور دوسری طرف اس کے گردونواح میں سماجی اور سیاسی بغاوتوں کی نشان دہی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ یہ بحران موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے مزید بڑھ گیا ہے اور ملک کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگرچہ مجموعی سیاسی صورتحال ریاست اور معاشرے پر فوج کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے ایک تاریک تصویر پیش کرتی ہے، لیکن یہ دیکھنا حوصلہ افزا ہے کہ اس کے گردونواح میں سماجی اور سیاسی تحریکیں، جیسے کہ بلوچستان میں، تبدیلی کی امید کی کرن ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سیاسی تحریک کا رخ پاکستانی ریاست کے آمرانہ کنٹرول اور اشرافیہ کے قبضے کے خلاف ہے جو بلوچ نسلی آبادی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کی طرف سے شدید جبر اور ان مظاہروں کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کرنے کے باوجود، بلوچستان میں سیاسی تحریک نے نوجوانوں کی بہت زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے اور باقی صوبوں میں دیگر نسلوں کو متاثر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
8 فروری 2024 کو ہونے والے پاکستان کے 12ویں عام انتخابات کے نتیجے میں طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے دائیں بازو کی مخلوط حکومت قائم ہوئی، جو جاری بحرانوں کے درمیان عارضی سیاسی استحکام پیش کر سکتی ہے۔ جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ آزاد امیدواروں نے براہ راست منتخب ہونے والی سب سے زیادہ نشستیں جیت لیں، لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے یا اتحاد بنانے میں ناکام رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل ن ) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کم نشستیں حاصل کیں، لیکن انہیں آئینی کوٹے کے تحت مخصوص نشستوں سے تقویت ملی۔ مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف وزیر اعظم جبکہ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے۔ اتحاد کو ٹیکس وصولی کو بڑھانا اور آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کرنے کے لیے ایندھن کی سبسڈی میں کمی جیسے سخت معاشی فیصلوں کا سامنا ہے۔
پاکستان میں نئی مخلوط حکومت کو عمران خان کے حامیوں کی طرف سے درپیش چیلنجوں اور ملک کی گہری اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے فوج اور انٹیلی جنس سروسز کی اہم مدد درکار ہوگی۔ فوج کو سیاست سے دور رہنے کے مطالبات کے باوجود یہ گورننس، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی پر مضبوط اثر و رسوخ کے ساتھ پاکستان کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ عمران خان کی تنقید نے فوج کے لیے عوامی حمایت کو کمزور کر دیا ہے، حتیٰ کہ اس سے قبل فوج کے حامی گروپوں میں بھی مسلح افواج کو سیاست دانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا ہے تاکہ وہ اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں۔ فوج کی تاریخی مداخلت معاشی جمود کا باعث بنی ہے۔ تاہم اس بارعمران خان کی تحریک کا خطرہ فوج کو نئی شریف حکومت کا تختہ الٹنے سے روک سکتا ہے، جو اس طرح کی کوششوں کے مقابلے میں لچکدار ثابت ہو سکتی ہے۔
ملک کو 123 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا سامنا ہے اور اسے 2026 تک 78 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ پاکستان کی معیشت دائمی بجٹ اور تجارتی خسارے، کم ٹیکس محصولات، اور ناکافی برآمدی نمو کا شکار ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بمشکل چند ماہ کی درآمدات کو پورا کر پاتے ہیں۔ ملک نے آئی ایم ایف کے قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور 1958 سے اب تک 23 بار قرض لیاگیا ہے۔یہ تمام قرضے بنیادی طور پر معاشی ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ماضی کے قرضوں کو پورا کرنے کے لیے حاصل کئے گئے ہیں۔
جن جہادی دہشت گرد گروہوں کو ابتدا میں بھارت کے ساتھ تنازعات میں استعمال کرنے کیلئے محفوظ رکھا گیا تھا، وہ اب پاکستان کے اندر ایک بڑا سکیورٹی خطرہ بن چکے ہیں۔ 2000 کے بعد سے ملک نے 16ہزار600 سے زیادہ دہشت گرد حملوں کا سامنا کیا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں تقریباً 68 ہزاراموات ہوئیں، صرف 2023 میں 1080 ہلاکتیں ہوئیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اس وقت سب سے اہم خطرہ ہے، جو افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی سے بڑھ گیا ہے۔ وہ القاعدہ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ٹی ٹی پی کوبھی پناہ دے رہے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت نے تمام شدت پسند گروہوں کو نشانہ بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے ایک جامع منصوبے پر عمل درآمد کا عہد کیا ہے، حالانکہ ماضی کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اس بار اقتصادی پیش رفت کی ضرورت زیادہ فیصلہ کن کارروائی کر سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور تجارت کے دروازے کھول سکتی ہے، جس سے پاکستان کے معاشی چیلنجوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کیا آپ اس کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کا رجحان پاکستان اور خطے میں کس طرح ظاہر ہورہا ہے؟
فاروق طارق: پاکستان میں انتہائی دایاں بازو اپنے آپ کو مذہبی انتہا پسند اور اسلام پسند گروپوں کی شکل میں ظاہر کرتا ہے، جس میں ٹی ٹی پی بھی شامل ہے، جو ایک انتہائی دائیں بازو کا مذہبی گروہ ہے اور سماجی اور سیاسی طور پر بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو کی قوتیں 1980 کی دہائی کے افغان جہاد کے بعد سے ہمیشہ پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتی رہی ہیں۔ یہ پاکستان کے تیسرے بدنام زمانہ آمرجنرل ضیاء الحق تھے ،جنہوں نے انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کو خاص قانون سازی کے ذریعے مرکزی دھارے میں لایا اور انہیں سیاسی اور سماجی پلیٹ فارم مہیا کیا۔ مختلف سکالرز کے مطابق ضیاء کی پالیسیوں کی وجہ سے ریاست کی دیوبندائزیشن کی گئی۔ دیوبند فرقہ مرکزی دھارے میں شامل اسلام کی بنیاد پرست شاخوں میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیوبندی دھڑے مذہبی بیان بازی کے ذریعے بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ توہین مذہب کے قوانین اور احمدیہ مخالف جذبات جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ان گروہوں نے بعض اوقات بڑے احتجاجی مظاہرے کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان میں سے کچھ دھڑوں کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مخصوص مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے خلاف سیاسی مخالفت کا ڈھول پیٹنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ اس کی ایک مثال 2018 کے انتخابات میں سامنے آئی، جب مسلم لیگ (ن) کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے جھگڑا ہوا اور بعد میں نے ٹی ایل پی کو صوبہ پنجاب میں ووٹرز کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا، جو کہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کا اہم مرکز تھا۔
سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد بھی پاکستان میں انتہائی دائیں بازو کا ایک بڑا مظہر ہے۔ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ پاکستان جیسے گروپوں نے طویل عرصے سے شیعہ برادریوں کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں تشدد اور انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی اکثر علاقائی حرکیات، خاص طور پر سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان دشمنی کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔
پڑوسی ملک بھارت میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ انتہائی دائیں بازو ،خاص طور پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ہندو قوم پرستی سے گہرا تعلق ہے ۔ یہ تحریک ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دیتی ہے، ہندو ریاست کی وکالت کرتی ہے اور اکثر مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بناتی ہے۔
بنگلہ دیش میں طلبہ کی بغاوت کا کیا اثر ہوا؟
فاروق طارق: کوٹے کے خلاف احتجاج کے دوران بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کے خلاف شکایات کا ایک ڈھیر لگ گیا۔حسینہ کے دور حکومت میں بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کی نمو دیکھی ہے، لیکن یہ نمو بہت سے بنگلہ دیشیوں کے لیے معاشی بہبود کا وسیلہ نہیں بنی۔ مواقع کی کمی، نوجوانوں میں بیروزگاری کی بلند شرح اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کشیدگی کے مسلسل ذرائع رہے ہیں۔ دریں اثناء عوامی لیگ کی بدعنوانی، منی لانڈرنگ، رشوت ستانی اور اقربا ء پروری کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانے کے باوجود سکینڈلز نے حکومتی وزراء کو پریشان کر رکھا ہے۔ 2008 میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد سے عوامی لیگ نے ملک کی جمہوریت کو تباہ کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر 2011 میں حکومت نے ایک ایسا انتظام ختم کیا جس کے تحت 90 دن کی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگراں انتظامیہ کو انتخابات کے انعقاد اور اقتدار کی منتقلی کی نگرانی کرنے کی اجازت تھی۔ اختلاف رائے کو دبانے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کارکنوں، حزب اختلاف کی شخصیات اور انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کرنے اور حراست میں لینے کے واقعات زیادہ ہو گئے ہیں۔ حکومت پر کسی بھی تنقید بشمول طنزیہ اور سوشل میڈیا پوسٹس کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
میرے خیال میں حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں ایک بڑا خلا ء پیدا ہوا ہے، جسے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی قوتوں کے ذریعے پُر کرنے کا امکان ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج منظم نہیں تھا۔ وہ طلبہ کی خود رو بغاوتیں تھیں جنہیں کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ بنگلہ دیش میں مظاہروں کے نتیجے میں دو منظم قوتیں فوج اور مذہبی سیاسی جماعتیں بنی ہوئی ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ سیاسی منظر نامے پر دونوں کا کنٹرول ہو گا۔ یہ عرب بہار کے بعد مصر میں جو کچھ ہوا اس سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ مظاہروں نے حسنی مبارک کی کئی دہائیوں کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ دیکھا، لیکن اس کے بعد دائیں بازو کی جماعت الاخوان المسلمون اقتدار میں آگئی، جسے بعد میں فوج نے ختم کر دیا تھا۔ پھر سائیکل مکمل ہو گیا۔ عوام نے مبارک آمریت کے خلاف احتجاج کیا اور انقلاب برپا کیا لیکن نتیجہ دوبارہ آمرانہ حکومت کی صورت ہی برآمد ہوا، کیونکہ صرف منظم قوتیں یا تو مذہبی جماعتیں تھیں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ تھی۔
بھارت میں نریندر مودی حکومت کے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟
فاروق طارق: بھارت میں حالیہ انتخابی نتائج نے ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کی ہے۔ نریندر مودی کی بی جے پی نے ایک دہائی میں پہلی بار اپنی مکمل اکثریت کھو دی، اپوزیشن نے زبردست واپسی کی۔ مودی کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے باوجود سمجھا جاتا ہے کہ ان کی طاقت میں کمی آئی ہے کیونکہ اب وہ حکومت بنانے کے لیے اتحادیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس انتخاب کو مودی کے آمرانہ طرز حکمرانی کے خلاف ایک پش بیک کے طور پر دیکھا گیا، جس پر جمہوریت کو کمزور کرنے، اختلاف رائے کو دبانے اور طاقت کو مرتکز کرنے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
مودی اور ان کی بی جے پی کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس کو سمجھنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے ابتدائی دنوں سے خاص طور پر گجرات میں اپنے طویل مدتی وژن کے لیے ایک طریقہ کار اور حکمت عملی کی پیروی کی ہے۔ 1940 کی دہائی تک آر ایس ایس ریاست میں نمایاں طور پر پھیل چکی تھی، جس کی رکنیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ 1960 کی دہائی میں آر ایس ایس کے رہنماؤں نے جارحانہ ہندو مردانگی کے بیانیے کو فروغ دینا شروع کیا، جس نے ہندو مسلم کشیدگی میں اضافہ کیا۔ یہ سب کچھ1969 میں پرتشدد فسادات پر منتج ہوا۔مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد اور مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہوئیں۔ ایک نوجوان لڑکے کے طور پر آر ایس ایس میں شامل ہونے والے مودی اس کی سخت گیر مذہبی قوم پرستی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ 1980 کی دہائی کے آخر تک وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کوجوڑنے میں ایک اہم شخصیت بن چکے تھے۔ انہوں نے ہندو قوم پرست مقاصد کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس میں بابری مسجد کی جگہ پر مندر بنانے کی مہم بھی شامل تھی، جسے بالآخر 1992میں انتہاء پسند ہندوؤں نے تباہ کر دیا تھا۔
حالیہ دہائیوں میں آر ایس ایس نے ،بالخصوص بی جے پی کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے ،تیزی سے مرکزی دھارے کی ہندوستانی سیاست کو متاثر کیا ہے۔ آر ایس ایس نے ہندو ووٹروں کو متحرک کرنے اور اہم سیاسی اور تعلیمی فیصلوں کو متاثر کرنے کے لیے اپنے وسیع نیٹ ورک کا فائدہ اٹھایا ہے۔ 2014 سے بی جے پی کی قیادت میں آر ایس ایس نے یونیورسٹی کے رہنماؤں کا تقرر کیا، ہندو اکثریتی نظریات کی عکاسی کرنے کے لیے نصابی کتب پر نظر ثانی کی، اور اہم پالیسی معاملات پر مشاورت کی گئی۔ بی جے پی کی جانب سے خود کو آر ایس ایس سے دور کرنے کی حالیہ کوششوں کے باوجود مؤخر الذکر کا نچلی سطح کا نیٹ ورک اہم ہے۔ اپنی کثیر الثقافتی اور سیکولر روایات کے ساتھ بھارت کی جمہوریت کے مستقبل کو اس غالب ہندو قوم پرست ایجنڈے سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
آپ فورتھ انٹرنیشنل کے بڑے معاصر حوالوں میں سے ایک ہیں۔ کیا آپ ہمیں اپنے پس منظر کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟
فاروق طارق: میں پنجاب یونیورسٹی میں بائیں بازو کا طالب علم کارکن تھا، جہاں میں اپلائیڈ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ میں مذہبی جنونیوں کے خلاف کئی لڑائیوں میں مدد اور قیادت کرتا رہا ہوں۔ 1977 کے آخر میں میرے ایک مضمون میں پیپلز پارٹی کی دائیں بازو کی قیادت اور فوجی جنرل کے درمیان ہونے والی سازش کو بے نقاب کرنے کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ میں نے 8 سال جلاوطنی میں گزارے اور پھر ایک شہری کے طور پر ہالینڈ میں رہنے کا اختیار ہونے کے باوجود پاکستان واپس آ گیا۔ میں 1997 سے 2019 تک لیبر پارٹی پاکستان اور بعد میں عوامی ورکرز پارٹی کا جنرل سیکرٹری رہا۔ میں نے AWP چھوڑ کر ایک نئی سیاسی جماعت حقوق خلق پارٹی بنائی، اور میں اس کا صدر ہوں۔ میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کا جنرل سیکرٹری بھی ہوں۔ یہ پاکستان کی واحد تنظیم ہے جو La Via Campesinaسے منسلک ہے۔ میں ایشیا یورپ پیپلز فورم ایشیا ٹیم کا سربراہ بھی ہوں، اور کئی دیگر علاقائی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز میں شامل ہوں۔
(ترجمہ: حارث قدیر)