لاہور (نامہ نگار) افغانستان کے ایک بااثر ہزارہ رہنما کریم خلیلی پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ دورہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کوئلے کے 11 کان کنوں کے فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کے بعد ہو رہا ہے۔ قتل ہونیوالے شیعہ کان کنوں میں سے 9 کا تعلق افغانستان سے تھا۔
ان کان کنوں کوپاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں داعش کے عسکریت پسندوں نے اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا تھا، وہ اقلیتی ہزارہ نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان میں ایک ہفتے کے احتجاج کے بعد انہیں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ ہزارہ شیعہ برادری کے زیادہ تر ممبر پاکستان اور افغانستان میں رہتے ہیں۔
سنی عسکریت پسند گروپ داعش کا صدر مقام افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں واقع ہے جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہے، اسی طرح پاکستانی سنی عسکریت پسند گروپوں نے بار بار ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا ہے۔
اے پی کے مطابق خلیلی کے اس دورے کو دونوں پڑوسی ممالک کے مابین افغان حکومت کے مذاکرات کاروں اور طالبان کے مابین قطر میں جاری امن مذاکرات کے متوازی تعلقات کی بحالی کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ متحارب فریق ایک ایسا سیاسی روڈ میپ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے افغانستان میں کئی عشروں کی جنگ کا خاتمہ ہو۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”خلیلی کا یہ دورہ پاکستان کی اس پالیسی کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد افغانستان میں سیاسی قیادت تک پہنچنا ہے تاکہ وہ افغان امن عمل پر مشترکہ تفہیم قائم کرسکیں۔“
یہ شیعہ رہنما، جو سابق صدر حامد کرزئی کی حکومت میں نائب صدر تھے، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کریں گے۔
عمران خان نے گذشتہ سال کے آخر میں افغانستان کا سفر کیا، جبکہ حالیہ مہینوں میں ملک کی مفاہمت کونسل کے سربراہ عبداللہ عبد اللہ سمیت متعدد سینئر افغان رہنما اسلام آباد آئے تھے تاکہ تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔
افغانستان پاکستان پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ ہندوستان کو دفاعی حکمت عملی کے تحت طالبان کو پناہ دے رہا ہے اور افغانستان پر اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد کابل پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔