فاروق سلہریا
اس سال کے آغاز میں اتفاق سے،لاہور میں ایک ایسے اجلاس میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع تھا کاپی رائٹس۔ کاپی رائٹس دنیا کی ایک بڑی صنعت ہے۔ اپنی ڈاکٹریٹ پر تحقیق کے دوران، بالخصوص ڈبلیو ٹی او کے حوالے سے نئی قانون سازی کے پس منظر میں راقم نے بھی اس موضوع سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ میری تحقیق کا موضوع گلوبلائزیشن کے عہد میں میڈیا سامراج کا جائزہ لینا تھا۔
پی ایچ ڈی کے دوران،میرے لئے کاپی رائٹس ایک ثانوی موضوع تھا لیکن اس میں دلچسپی رہی اس لئے جب اس موضوع پر سیمینار کا اعلان ہوا تو میں بھی چلا گیا۔
سیمینار کے مقرر ایک سابق بیوروکریٹ تھے جو ہمیں یہ درس دے رہے تھے کہ ہمیں اپنا ہرتخلیقی کام کاپی رائٹ کروانا چاہئے۔ حسب معمول ہماری حب الوطنی سے بھی اپیل کی گئی کہ ہندوستان کو دیکھو انہوں نے باسمتی،جو اس دنیا کو مادرِ وطن پاکستان کی دین ہے، پر بھی کاپی رائٹ کے ذریعے قبضہ جمانے کی کوشش کی۔خوش خبری یہ تھی کہ ریاست پاکستان نے اس مذ موم ہندوستانی سازش کو ناکام بنا دیا۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، ایک سے ایک ذہین دماغ موجود ہے مگر لوگ اپنی یجادات کو پیٹنٹ ہی نہیں کرواتے۔ دریں اثناء،محفل میں موجود طلبہ کو دیکھ کر،انہوں نے اس بات پر بھی اظہار افسوس کیا کہ پاکستان میں دھڑا دھڑ کتابیں ڈاون لوڈ کر لی جاتی ہیں۔
سوال جواب کے وقفے کے دوران،میں نے معزز مقرر سے عرض کیا کہ عالمی منڈی میں پاکستان جیسی مضافاتی معیشیت (periphery economy) کا عالمی کاپی رائٹس انڈسٹری میں اتنا ہی حصہ ہو سکتا ہے جتنا باقی صنعتوں میں ہے۔ دوم، پاکستان میں ہم کتابیں ڈاون لوڈ نہ کریں تو کیا کریں، کس طالب علم یا استاد کی جیب میں اتنے پیسے ہیں کہ دو سو ڈالر کی اکیڈیمک کتاب خریدے۔ میں نے اپنا موقف بیان کیا کہ کتاب ہو یا کار، یہ اجتماعی پیداوار ہوتے ہیں جس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہئے،بالخصوص غریب ملکوں کو تو سامراجی نوعیت کے کاپی رائٹس کی مخالفت کرنی چاہئے۔بھٹو دور کا بھی حوالہ دیا جب حکومت نے کچھ اچھے اقدامات کئے۔
معزز مقرر ہمیں یہ بات پہلے ہی بتا چکے تھے کہ وہ جو کام کر رہے ہیں، اس کی تنخواہ نہیں لیتے،وہ وطن کی محبت میں یہ پیغام پھیلا رہے ہیں۔ سو جب میرے علاوہ اجلاس میں موجود ایک طالب علم نے بھی کاپی رائٹس کی مخا لفت شروع کر دی تو سابق شاہی افسر تھوڑا غصے میں آ گئے۔ بھٹو کی ناکام نیشنلائزیشن کی یاد دلانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ کتابیں ڈاون لوڈ کرنا عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے(سیاسی حکومتوں کو ڈاون لوڈ کر کے ملکی قانون کی جو خلاف ورزی ہوتی ہے،اس بابت وہ خاموش رہے)۔
جیسا اکثر ہوتا ہے،کتابوں کے ڈاون لوڈ کرنے کے حوالے سے بحث شروع ہو گئی۔ میرا موقف تھا کہ پاکستان جیسے ممالک کو کم از کم سلیبس اور اکیڈیمک کتابوں پر کاپی رائٹس کی بھر پور مخالفت کرنی چاہئے، کاپی رائٹس کے قوانین ہی غلط ہیں لیکن پھر بھی اگر قوانین کو ماننا ہے توریاستی سطح پر متبادل تلاش کئے جائیں۔
معزز شاہی افسر کا خیال تھا کہ کاپی رائٹس کسی آسمانی صحیفے کی طرح مقدس ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس کسی قسم کی کوئی دلیل نہیں بچی تو انہوں نے بحث سے جان چھڑانے کا روایتی حاکمانہ طریقہ اختیار کیا۔ فرمانے لگے:
Let us agree to disagree.
یہ کہنا کہ میرا نقطہ نظر بھی ٹھیک ہے،آپ کا بھی درست ہے۔۔۔منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ نقطہ نظر کی درستگی کا ایک آسان معیار ہے: دلیل۔
دلیل کی ایک آسان تعریف ہے: ایسا موقف جسے منطق اور ثبوت کے ساتھ ثابت کیا جا سکے(متعدد بار یہ تعریف یہاں پہلی بھی بیان کی جا چکی ہے)۔
ہمارے ہاں اکثر جب لوگوں کے پاس کج بحثی کے دوران کوئی دلیل نہیں بچتی تو وہ کہتے ہیں لیٹ اَس ایگری ٹو ڈِس ایگری۔
یوں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ میرا موقف دلیل سے عاری سی مگر ہے درست (کیونکہ میں شاہی افسر ہوں، پروفیسر ہوں، طاقتور ہوں،عمر میں بڑا ہوں،مشہور ہوں۔۔۔وغیرہ وغیرہ)۔ اِس تکنیک کی مدد سے غلط موقف کو بھی جواز فراہم کر دیا جاتا ہے۔ اس دھوکے میں کبھی مت آئیں۔
اس تکنیک کا ایک دوسرا اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ مدلل موقف اور جہالت پر مبنی موقف کو برابر قرار دے دیا جاتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ مسجد کا ایک مولوی زمین کے گول ہونے کی نفی کرے،یہ بھی نہ بتا سکے کہ جب پاکستان میں دن ہوتا ہے تو امریکہ میں رات کیوں ہوتی ہے مگر یہ کہہ کر بحث ختم کر دے کہ لیٹ اَس ایگری تو ڈِس ایگری۔
اس تکنیک کا تیسرا خطر ناک پہلو یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اپنے موقف کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔
جمہوریت بہت اچھا نظام ہے مگر اس کی کچھ خامیاں بھی ہیں (جن کا بہر حال علاج یہ ہے کہ مزید جمہوریت لائی جائے نہ کہ آمریت کی حمایت کی جائے)۔
ایک خامی یہ ہے کہ انسان کو جاہل رہنے کا اور جہالت کی پر امن تبلیغ کا پورا حق ہے۔
یہ حق اپنی جگہ مگریہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے:جا ہل رہنا انسان کا جمہوری حق سہی مگر جہالت نقطہ نظر نہیں ہوتا!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔