آتش خان
پاکستانی ریاست کی مقتدر قوتیں ایک مرتبہ پھر ریاست کی بقاء کے لیے پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کو ناگزیر قرار دے رہی ہیں۔ دوسری طرف یہی قوتیں ہیں جو دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور ان کالعدم تنظیموں کو عوامی تحریکوں اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔
رواں ماہ 16 نومبر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں ترقی پسند اور آزادی پسند جماعتوں کی طرف سے کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے سرعام اسلحہ لہرانے،سیاسی کارکنوں کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر کے قتل کی دھمکیاں دینے والے عناصر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور صدارتی آرڈیننس جیسے کالے قوانین کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ شہر میں سرے عام اسلحہ لہرانے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی بجائے پرامن احتجاج کرنے پر25 معلوم اور 200 نامعلوم سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔جن کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں،ان کا تعلق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ، پیپلز ریولوشنری فرنٹ،جے کے نیپ،جے کے این ایس ایف اور جے کے ایس ایل ایف سے ہے۔
دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی ریاستی ادارے کر رہے ہیں۔یہ بات آج بچے بچے کو معلوم ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ عہد میں مزاحمتی تحریکوں میں ’یہ جو دہشتگردی ہے،اس کے پیچھے وردی ہے‘ جیسا نعرہ سب سے مقبول ہے۔کالعدم جیش محمد، جماعت الدعوۃاور سپاہ صحابہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے مراکز پنجاب سمیت ملک بھر میں قائم ہیں۔فوجی آپریشن پختون خوا اور بلوچستان میں کیے جا رہے ہیں۔اس مرتبہ ریاست کو فوجی آپریشن کے خلاف پختونخوا میں شدید عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔پختونخوا کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد نے فوجی آپریشن اور طالبان کے خلاف احتجاج کیے ہیں۔
پختون تحفظ موومنٹ نے قومی جرگے کے اعلامیہ میں طالبان اور فوج کو دو ماہ میں پختونخوا سے نکل جانے کا وقت دیا ہے۔جرگے نے اس کے علاوہ ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے گڈ طالبان کے دفاتر سیل کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف دہائیوں سے جاری لڑائی میں ہزاروں افراد کو قتل،معزور اور بے گھر کرنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف ایک اور فوجی آپریشن کی باتوں سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔سب سے اہم سوال یہ ہے ماضی کے فوجی آپریشنوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ آخری فوجی آپریشن ہے اوراس کے بعد امن ہو گا؟عوام کی شدید مخالفت کے باوجود جنہوں نے 5 ہزار طالبان کے خاندانوں کو واپس لایا اور ملک بھر میں آباد کیا ان کے خلاف اب تک کیا کاروائی کی گئی؟اگر طالبان کو واپس ہی لانا تھا تو ماضی میں فوجی آپریشن کیوں کیے گئے؟اگر دہشت گردی ملک کے وجود کے لیے خطرہ ہے تو اس کی پشت پناہی کیوں کی جا رہی ہے؟
پاکستان میں اب تک دہشت گردی میں مارے جانے والے افراد کی تعداد 70 ہزار سے زیادہ ہے،جن میں فوجی سپاہیوں کے علاوہ ہزاروں عام شہری شامل ہیں۔اس کے علاوہ بڑی تعداد میں عوام معذور ہو چکے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف ہونے والی فوجی آپریشنز میں لاکھوں لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا،جو اب تک دوبارہ آباد نہیں ہو سکے اور ہزاروں افراد لاپتہ ہیں۔دہشت گردوں کی بربریت کا شکار محض وہ لوگ نہیں ہیں جو براہ راست دہشت گروں کا نشانہ بنے بلکہ قبائلی علاقوں میں بے شمار سکولوں کو تباہ کیا گیا اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی ہے۔کالعدم تنظیمیں،جن کے ہاتھ ہزاروں نہتے عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں،پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نہ صرف اپنی سرگرمیاں کرنے میں آزاد ہیں،بلکہ ریاستی سرپرستی میں سر عام اسلحے لہراتے اور سیاسی کارکنوں اور عوام کے قتل عام کی دھمکیاں دیتے ہیں۔اسلحے کی نمائش پولیس کی موجودگی میں کی جاتی ہے۔دوسری طرف محنت کشوں اور نوجوانوں کے اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج پر کالے قوانین کے ذریعے پابندی عائد کی جاتی ہے۔
جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کی جزوی کامیابی نے مقتدر قوتوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے آمرانہ قوانین کے ذریعے احتجاج جیسے بنیادی حق کو چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تحریکوں کے دوران جب محنت کش عوام اور حکمران طبقے کے درمیان طبقاتی کشمکش شدت اختیار کرتی ہے تو ایسے وقت میں حکمران طبقہ قوانین بنانے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن قوانین پر عمل درآمد کرنے کی قوت نہیں رکھتا ہے۔محنت کش عوام حکمران طبقات کے تمام قوانین کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھتے ہیں۔حکمران طبقے کی تحریکوں کے بعد کوشش ہوتی ہے کہ ریاستی رٹ کو بحال کیا جائے اور جبر کے نظام کو قائم رکھا جائے۔محنت کشوں کی حتمی لڑائی اس جبر کے نظام کا خاتمہ اور نئے سماج کی بنیاد رکھنا ہے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ریاست براہ راست ریاستی جبر کے ساتھ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تاجر قیادت کے ذریعے سماج کو پرانے معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔11 مئی کے بعد قیادت کے ذریعے آزادی اور خود مختاری کے نعروں پر اعلانیہ اور آزادی پسند اور ترقی پسند پارٹیوں اور طلبہ تنظیموں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی۔ان قوتوں کو تحریک سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی،جو تحریک کو آگے لے جا سکتی ہیں۔اس کے علاوہ کالعدم تنظیموں کے ذریعے ترقی پسند قوتوں کے خلاف کفر کے فتوے اور قتل کی دھمکیاں دی گئی۔
حکمران طبقہ محض پولیس اور فوج کے ذریعے عوامی تحریکوں کو نہیں کچل سکتا ہے۔ اس لیے وہ سماج کی پسماندہ پرتوں کو فسطائی نظریات کی بنیاد پر تحریکوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دہشت گردی کی پشت پناہی اس لیے بھی کی جاتی ہے،تاکہ اس دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنوں کی آڑ میں انقلابی قوتوں کا خاتمہ کیا جائے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ریاستی سرپرستی میں چلنے والی کالعدم تنظیموں سے وابسطہ افراد آزادی کے نام پرہتھیار اٹھا رہے ہیں،کیوں کہ ریاست کو معلوم ہے کہ مذہبی چورن فروخت نہیں ہو سکتا ہے۔ان افراد کی آڑ میں پولیس عام عوام کی تذلیل کر رہی ہے۔انہی عناصر کو بنیاد بنا کر،جن کی تربیت خود ریاست نے کی ہے،جموں کشمیر میں ریاست جبر کے جواز کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ایسے وقت میں انقلابی قوتوں کا کام عوام کے جمہوری، سیاسی اور معاشی حقوق کی جدوجہد کو تیز کرنا ہے۔جمہوری اور طبقاتی جدوجہد جتنی شدید ہو گی فسطائی قوتیں اتنی ہی کمزور ہوں گی۔محنت کشوں کے اتحاد کے ذریعے جو طاقت جنم لیتی ہے اسے دنیا کی کوئی قوت شکست نہیں دے سکتی ہے۔