پاکستان

’بائیں طرف‘

نعیم احمد

فیصل آباد میں کلاک ٹاور کے چند سو میٹر کے فاصلے پر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے مرکزی ہال میں سرخ جھنڈے اٹھائے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ ان میں بوڑھے مرد اور عورتیں، نوجوان بالغ اور کچھ بچے شامل تھے۔ ان میں زیادہ تر پاور لوم ورکرز، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدور اور طلبہ تھے۔ اس موقع پر کئی اضلاع سے ٹریڈ یونین رہنما، کارکن اور کسان اتحاد کے نمائندے بھی موجود تھے۔ یہ سب حق خلق پارٹی کے زیر اہتمام ورکرز کنونشن میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

کنونشن کے اہم مقررین میں بانی پاکستان پیپلز پارٹی کے پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر،پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا سے رقم قومی اسمبلی ڈاکٹر امجد علی خان، حق خلق پارٹی کے سیکرٹری جنرل عمار علی جان اور مزدور کسان پارٹی کے تیمور رحمان شامل تھے۔

کنونشن کے شرکاء نے مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد میں طلبہ اور نوجوانوں کو متحد کرنے اور ملک گیر کسانوں کی تحریک کو منظم کرنے کے لیے ایک عوامی تحریک چلانے کا عزم کیا۔ انہوں نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کرنے والی تحریک شروع کرنے اور جمہوریت اور آئین میں درج حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے کا بھی عزم کیا۔

حقوقِ خلق پارٹی نے چند سال قبل لاہور میں طلبہ مارچ کے دوران پہلی بار ملک گیر توجہ حاصل کی، جہاں سڑکوں پر ’جب لال جھنڈا لہرائے گا‘ کا نعرہ گونجا۔ حقوق خلق پارٹی اب پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کو بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

فیصل آباد طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔ برطانوی دور حکومت میں یہ ایک اہم زرعی مرکز تھا۔ آزادی کے بعد یہ ایک بڑے صنعتی شہر کے طور پر بھی ابھرا۔ایک صدی سے زیادہ عرصے سے فیصل آباد کسانوں اور مزدوروں کی اہم تحریکوں میں سب سے آگے رہا ہے۔

لائل پور (فیصل آباد کا پرانا نام)میں کسانوں کی ابتدائی بغاوتوں میں سے ایک 1907 کی ’پگڑی سنبھال جٹا‘ تحریک تھی۔ تحریک نے تین نوآبادیاتی قوانین کی مخالفت کی: دوآب باری ایکٹ، پنجاب لینڈ کالونائزیشن ایکٹ اور پنجاب لینڈ ایلینیشن ایکٹ۔ ان قوانین کے تحت برطانوی حکومت نے 1879 میں دریائے چناب سے اپر باری دوآب کینال کی تعمیر کے بعد کسانوں کی جانب سے کاشت کی گئی زمینوں پر دعویٰ کیا تھا۔

اگرچہ ابتدائی طور پر آباد کاروں سے مفت زمین کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن بعد میں انہیں ملکیت دینے سے انکار کر دیا گیا اور انہیں محض حصہ داروں تک محدود کر دیا گیا۔ نئے ضوابط نے انہیں اپنی زمینوں پر مکانات بنانے یا درخت کاٹنے سے منع کر دیا۔ مزید برآں، اگر کسی کسان کا بڑا بیٹا بالغ ہونے سے پہلے ہی فوت ہو جائے تو زمین چھوٹے بیٹے کو دینے کی بجائے حکومت کو واپس کر دی جائے گی۔

اس تحریک کی قیادت بھگت سنگھ کے چچا سردار اجیت سنگھ اور ان کے والد کشن سنگھ نے کی تھی۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ریور سائیڈ میں ایک ممتاز پروفیسرپشورا سنگھ نے ’لائل پور کی 1907 کی زرعی بغاوت (پگڑی سنبھال جٹا) پر ہندوستان کی موجودہ کسان تحریک کے سلسلہ پر نظر ثانی‘کے عنوان سے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا کہ۔۔۔یہ پہلی ایسی منظم کسان تحریک تھی، جس نے برطانوی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس تحریک نے نہ صرف کسانوں کو بااختیار بنایا بلکہ برصغیر میں آزادی کی وسیع تر جدوجہد کی بنیاد بھی رکھی۔ بھارتی پنجاب میں کسانوں کے مظاہروں کے ساتھ مماثلت رکھتے ہوئے، غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی روایت آج تک زندہ ہے۔

ورکرز کنونشن کے دوران حقوق خلق پارٹی کے جنرل سیکرٹری عمار علی جان نے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف بھگت سنگھ کی بغاوت کا حوالہ دیتے ہوئے فیصل آباد کی مزاحمت کی بھرپور تاریخ کا ذکر کیا۔

انکا کہنا تھا کہ ’بھگت سنگھ اس شہر میں برطانوی سلطنت کے خلاف کھڑا ہوا۔ ہمیں اس کی میراث کو زندہ رکھنا چاہیے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے۔ ہمیں منظم ہونا چاہیے۔‘

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے سندھ اور پنجاب میں کسانوں اور کرایہ داروں کی جدوجہد کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ ’اس ملک کے حقیقی وارث عام لوگ ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے، جبر کے خلاف مزاحمت کریں گے اور انقلابی تبدیلی لائیں گے۔‘

بھٹو جونیئر نے دریائے سندھ سے مزید 6نہریں نکالنے کی تجویز پر بھی سخت تنقید کی اور اسے ’سندھ کے کسانوں اور حصہ داروں کے ساتھ ناانصافی‘قرار دیا۔

23سے 25مارچ1970کو لائل پور کی تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہونے والی کسان کانفرنس پاکستان کی تاریخ کے سب سے اہم بائیں بازو کے اجتماعات میں سے ایک اجتماع تھا۔

سینئر صحافی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے طارق سعید جماعت نہم کے طالب علم کے طور پر کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔وہ یاد کرتے ہیں کہ ’بلوچستان کے دور دراز اضلاع، شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) اور سندھ سے وفود 21 مارچ کو ہی سرخ ٹوپیاں پہن کر پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔‘

22 مارچ کو جوش و خروش عروج پر تھا جب مرزا ابراہیم مرحوم کی قیادت میں ریلوے کارکنوں کا ایک جلوس لاہور سے ٹرین کے ذریعے پہنچا، جس میں سب نے سرخ ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ جب وہ بازاروں سے گزرے تو مقامی دکانداروں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ ملک بھر سے جلوسوں کی آمد کا سلسلہ دن بھر جاری رہا۔

تاہم سب سے زیادہ پرجوش لمحہ اس وقت آیا جب کسان ایکسپریس معروف بنگالی کسان رہنما مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کو لے کر لاہور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچی۔ یکجہتی کے شاندار مظاہرے میں ٹرین کے ڈرائیور، گارڈ اور عملے نے سرخ ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔

طارق سعید یاد کرتے ہیں کہ’مولانا بھاشانی اور کراچی کی ممتاز خاتون مزدور رہنما بیگم کنیز فاطمہ کو خوبصورتی سے سجی ہوئی بیل گاڑی پر بٹھایا گیا اور ریلوے اسٹیشن سے ایک بڑے جلوس کی صورت انہیں لے جایا گیا۔پورے مارچ کے دوران ہزاروں شرکاء ’تمام زمینیں ضبط کرو‘، ’سرمایہ داری اور جاگیرداری مردہ باد‘، ’سامراج مردہ باد‘ جیسے نعرے لگارہے تھے۔‘

ریلوے اسٹیشن سے کانفرنس کی جگہ کا فاصلہ صرف 1.5 کلومیٹر تھا۔ تاہم جلوس کو اپنی منزل تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگے۔ جیسے ہی مولانا بھاشانی سٹیج پر چڑھے، ہزاروں لوگ کھڑے ہو کر کئی منٹ تک تالیاں بجاتے رہے۔ مجمع’سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے‘ کے نعروں سے گونجتا رہا۔

کانفرنس کے دیگر نمایاں مقررین میں شاعر فیض احمد فیض، نیشنل عوامی پارٹی کے مسیح الرحمان (جو بعد میں بنگلہ دیش کے نائب وزیراعظم بنے)، پنجاب کسان کمیٹی کے صدر راؤ مہروز اختر خان، عابد حسن منٹو، معراج محمد خان، خاکسار تحریک کے رہنما امیر حبیب اللہ سعدی، رسول بخش پلیجو اور قاضی غیاث الدین جانباز شامل تھے۔ کانفرنس کی کارروائی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پاکستان کسان کمیٹی کے صدر چوہدری فتح محمد نے چلائی۔

یادگار لمحات میں سے ایک وہ وقت آیا جب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ملک معراج خالد نے سٹیج سنبھالا اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ سامعین نے زبردست جوش و خروش سے جواب دیا۔ اس تقریب پر روشنی ڈالتے ہوئے طارق سعید کہتے ہیں کہ ’کانفرنس سے کسانوں اور مزدوروں کو براہِ راست فائدہ ہوا یا نہیں، یہ بحث طلب ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اجتماع کی کامیابی نے پاکستان پیپلز پارٹی کو نمایاں طور پر فروغ دیا، اور اسے اس کے پہلے عام انتخابات جیتنے میں مدد ملی۔‘

اپنے ایک کالم میں آنجہانی سوشلسٹ رہنما ڈاکٹر لال خان نے تاریخی کسان کانفرنس کی عکاسی کرتے ہوئے لکھاکہ ’ایوب خان کی تیز رفتار صنعت کاری کے باوجود198-69 میں پاکستان اب بھی بنیادی طور پر ایک زرعی معاشرہ تھا۔ آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی تھی، شہروں سے نکلنے والے انقلابی نعرے اور مطالبات تیزی سے دیہاتوں میں گونج رہے تھے، جو کسانوں کے شعور، نفسیات اور سوچ پر گہرا اثر ڈال رہے تھے۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’ایوب خان کی حکومت کے خلاف جاری تحریک کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں کسانوں اور چھوٹے کسانوں نے بڑے زمینداروں کے تسلط کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ کسانوں کی تحریک کا مقبول نعرہ تھا ’جیڑا واہوے، اوہی کھاوے‘(جو اناج پیدا کرے وہی کھائے)۔

ڈاکٹر لال خان نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پہلی کسان کانفرنس مارچ 1948 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہوئی،جہاں پنجاب کسان کمیٹی بنائی گئی۔ انہوں نے لکھاکہ 1970 کی کانفرنس کی کامیابی نے پنجاب اور سندھ میں جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ دونوں کو بے چین کر دیا۔ ساتھ ہی مذہبی دھڑے بھی ناراض ہوئے۔

ڈاکٹر لال خان لکھتے ہیں کہ ’کسان کانفرنس کے جواب میں دائیں بازو کی کئی جماعتوں نے 31 مئی 1970 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں یوم شوکت اسلام، جس کے انعقاد میں جماعت اسلامی کا اہم کردار تھا، کے خلاف ایک جوابی تقریب کا انعقاد کیا۔‘

دلچسپ بات ہے کہ حقوق خلق پارٹی کا ورکرز کنونشن بھی تحریک لبیک پاکستان کے ورکرز کنونشن منعقدہ فیصل آباد پریس کلب کی عمارت بالمقابل بار کی عمارت میں منعقد ہو رہا تھا۔

سیاسی کارکن اور محقق ڈاکٹر محمد عرفان نے گفتگو میں پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ماضی میں نظریاتی سیاسی کارکن بے لوث سرگرمی میں مصروف رہتے تھے۔ بائیں بازو کے زیادہ تر کاموں کو آج مختلف این جی اوز تعاون فراہم کرتی ہیں۔ اجتماعی کارروائی کا جذبہ ختم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ این جی او کے منصوبوں اور فنڈنگ نے لے لی ہے۔‘

ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ ایک وقت میں بائیں بازو کی مضبوط عالمی موجودگی تھی، جس نے پاکستان کو بھی متاثر کیا تھا، لیکن حالیہ دنوں میں پاپولزم کا غلبہ تھا۔ بایاں بازو اپنی بقا کی جدوجہد کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور پورے خطے میں محنت کش طبقے کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے منظم ہونے کی بجائے کسی مسیحا کی تلاش ہے۔ یہ پاکستان میں محنت کش طبقے کی تحریکوں اور بائیں بازو کی سیاست کا المیہ ہے۔‘

عمار علی جان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری کے تحت آزاد منڈی کی معیشت نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر ناکام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے محنت کش طبقے اور حکمران اشرافیہ کے درمیان تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ ’حکومتیں اور سرمایہ دار اپنی ملی بھگت سے اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے محنت کشوں اور کسانوں کو دستیاب محدود مراعات کو بھی کم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس استحصال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارا مقصد معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کو منظم اور بااختیار بنانا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عوام کو جو بھی حقوق ملے ہیں وہ تاریخی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ ’اجرتوں میں اضافہ، کم از کم اجرت کا تعین، پنشن، سوشل سیکورٹی، ویلفیئر بورڈز اور لیبر ڈیپارٹمنٹس کا قیام یہ سب ماضی کی جدوجہد کے براہ راست نتائج ہیں۔ یہاں تک کہ مزدوروں اور کسانوں سے متعلق آئینی دفعات بھی ان تحریکوں کی وجہ سے موجود ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حالیہ برسوں میں کسانوں، مزدوروں، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، طلبہ اور دیگر پسماندہ گروہوں کے احتجاج میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ہم ان کو ایک مشترکہ تحریک میں متحد کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کو آگے بڑھانے کا واحد راستہ سیاسی نمائندگی ہے۔ مظلوموں کی آواز کو اسمبلیوں میں سنے جانے کی ضرورت ہے۔‘

اقتدار میں موجود سیاسی پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمار علی جان نے کہا کہ ’وہ سرمایہ داروں کی جیبوں میں ہیں اور ان سے مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی وکالت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘

پاکستان میں مزدوروں اور صنعتوں کے تحفظ کے لیے ایک طویل المدتی صنعتی پالیسی کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ان نظاماتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مزدور یونینوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ریاست کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات کو بڑھانے اور علاقائی ممالک کے مقابلے میں مسابقتی برتری حاصل کرنے کے لیے مزدوروں کی اجرت کم رکھی جائے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد صرف مزدوروں کے حقوق کے بارے میں نہیں ہے،بلکہ منصفانہ اور صحت مند مسابقت کو یقینی بنانے کے لیے ایک پائیدار صنعتی پالیسی کا مطالبہ کرنے کے لیے بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ زمین پر کام کرنے والوں کو اس سے فائدہ ملنا چاہیے۔ ماضی میں زمیندار کرایہ دار کسانوں اور زرعی مزدوروں کی محنت کا استحصال کرتے تھے۔ اب وہ کارپوریٹ فارمنگ متعارف کروا رہے ہیں، جس سے استحصال مزید بڑھے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ زمینی اصلاحات ہی واحد حل ہے، لیکن آنے والی حکومتیں ان کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ بائیں بازو کی سیاست وقت کے ساتھ کمزور ہوئی ہے، وہ پر امیدہیں کہ مزدور اور کسان اب ان کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی تحریک کا آغاز طلبہ کے ساتھ کیا، جو ہماری پارٹی میں سب سے آگے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ورکنگ کلاس کے پس منظر سے آتے ہیں۔ اب ہم پورے پنجاب اور پاکستان میں خلق یوتھ فرنٹ کے نام سے ایک نئی تنظیم شروع کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ نوجوان، کسان اور مزدور مل کر اس ملک کو بچا سکتے ہیں۔‘

(بشکریہ: دی نیوز، ترجمہ: حارث قدیر)

Naeem Ahmad
+ posts