پاکستان

کیا جموں کشمیر میں عسکریت پسندی واپس آ رہی ہے؟

عائشہ صدیقہ

رواں سال اسلام آباد اور لاہور ’یوم یکجہتی کشمیر‘کے موقع پر نسبتاً پرسکون تھے، کیونکہ جموں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کی توثیق کرنے والی مرکزی تقریب 5فروری کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں منعقد ہوئی تھی۔ ایسا کئی وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے۔

ایک تو اسٹیبلشمنٹ دارالحکومت کو کاروبار کے لیے کھلا رکھنا چاہتی تھی۔گزشتہ سال کے آخر میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے جلوس کے بعد شاید حکومت اب اسلام آباد میں پریشان کرنے والے ہجوم جمع کرنے سے بھی گھبرا رہی ہے۔ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اسی روز’ڈان‘ کے زیر اہتمام ماحولیات کے حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے مٹھی بھر بھارتی افراد نے بھی یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر جوش و خروش میں نسبتاً کمی کا مشاہدہ کیا۔

تاہم یقینی طور پر حکومت کے لیے یہ بہتر تھا کہ جموں کشمیر سے متعلق تقریبات کو راولاکوٹ منتقل کیا جائے۔ خاص طور پر اگر عسکریت پسند قیادت کو ایک ایسے علاقے میں فریزر سے باہر نکالا جا رہا ہو، جہاں کم از کم پچھلے دو سال سے ناقص طرز حکمرانی پر پاکستانی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہو۔ جماعت اسلامی اور جیش محمد سے لے کر لشکر طیبہ تک جموں کشمیر میں متحرک رہنے والے تمام گروہ وہاں موجود تھے۔

جی ایچ کیو سے منظور شدہ شو

عسکریت پسند اور قوم پرست جموں کشمیر میں طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں، اور دونوں مختلف وجوہات کی بنیاد پر الگ الگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ذرائع نے مجھے بتایا کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں موجود ہیں اور دونوں مختلف طرح کی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ لشکر طیبہ نے اپنا سیاسی امیج بنانے کی کوشش شروع کر رکی ہے، جبکہ جیش محمد اپنے جہادی بیانیے پر قائم ہے۔ تاہم دونوں قوم پرست سیاست کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، جو اکثر ان کو مشکلات کا شکار بناتے ہیں۔ 5فروری کا واقعہ اس لیے ان عسکریت پسند گروپوں کے لیے اہم تھا کہ وہ اپنے حلقوں میں خود کو مقبول بنانے کے لیے یہ اشارہ دے سکیں کہ ریاست نے ایک بڑے شو کی منظوری دے دی ہے۔

خاص طور پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی نگرانی کی وجہ سے،وہ اسٹیبلشمنٹ جو عسکریت پسندوں کے لیے عوامی سطح پر حمایت کا مظاہرہ کرنے سے کنارہ کشی اختیار کر چکی تھی، اب وہ سیز فائر لائن کے اس پار یہ سگنل بھیجنے کے لیے بے چین دکھائی دیتی ہے کہ عسکریت پسندی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔

راولپنڈی کا ماننا ہے کہ بھارت بلوچستان میں مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ راولپنڈی سردیوں کے بعد نسبتاً کم لیکن قابل توجہ پیمانے پر بھارت کو بلوچستان پر مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے عسکریت پسندی کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ آرمی چیف عاصم منیر،جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی بھارت کے ساتھ خوشامد کی پالیسی کوبدل رہے ہیں۔

صرف ایسا نہیں ہے کہ عاصم منیر روایتی طور پر بھارت کے بارے میں زیادہ متعصب ہیں۔ انہیں ثابت قدم رہنے کا اپنا امیج بنانے،اور اپنے سپاہیوں اور افسروں میں زیادہ مقبولیت کی ضرورت ہے۔وہ عمران خان عنصر کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ پورا ملک، عدلیہ، سول بیوروکریسی، میڈیا اور سیاسی نظام مضبوطی کے ساتھ عاصم منیر کی گرفت میں ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی انہیں وہ مقبولیت فراہم نہیں کر سکا، جس کے وہ خواہشمند ہیں، یا جس کی انہیں ضرورت ہے۔

جی ایچ کیو کی جانب سے ریٹائرڈ اہلکاروں کوپی ٹی آئی کی حمایت کرنے اور آرمی چیف کی حمایت نہ کرنے پر سخت سزا کی وارننگ بھیج کر خاموش کروانے کے باوجود صورت حال اب بھی مکمل طور پرقابو میں نہیں ہے، حالانکہ حاضر سروس افسران کو مراعات، سول ملازمتوں اور زمینی گرانٹس سے راغب کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

ایک سینئر سیاستدان نے دعویٰ کیا کہ کور کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دینے والے تھری اسٹار جنرل کی جائز مالیت 4ارب روپے سے زیادہ ہے، جبکہ ایک کرنل یا بریگیڈیئر کی قیمت تقریباً500ملین روپے ہے۔ پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ اس میں سے کوئی بھی آرمی چیف کو سیاسی یا جسمانی تحفظ فراہم نہیں کر سکا۔ کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ پچھلے دو سالوں میں ایک دوبار صورتحال آرمی چیف کے لیے خطرناک بن گئی اور ان کے ادارے سے ہی یہ خطرہ پیدا ہوا۔ جب وہ مزید پانچ سال کی توسیع طلب کر رہے ہیں تو یہ صورتحال اور بھی خراب ہو سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روایتی طور پر بھرتی کے میدان کہلانے والے علاقوں میں فوجی خاندانوں اور اہلکاروں کو بھی اپنے ہی ادارے پر تنقید کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، اور ملکی سیاست کی خراب حالت کا الزام بھی فوک پر لگایا جاتا ہے۔

پاکستان بطور ثالث

جموں کشمیر اب اس طرح سیاسی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرواتا، اس لیے حکومت پاکستان نے اسے غزہ اور فلسطین کے مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ راولاکوٹ میں ہونے والی تقریب نہ صرف جموں کشمیر کے بارے میں تھی، بلکہ ایک ’الاقصیٰ کانفرنس‘ بھی تھی، جس میں حماس کے ترجمان اور ایران میں نمائندہ خالد القدومی بھی موجود تھے۔ راولپنڈی غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کے حوالے سے مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستان میں عوامی جذبات کو بخوبی سمجھتا ہے۔ تاہم اسے جموں کشمیر میں حماس کے عسکریت پسندوں کو استعمال کرنے یا مشرق وسطیٰ، یا کسی اور جگہ سے جہادیوں کو پاکستان لانے کا کوئی منصوبہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں حماس کے ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مصروفیات یرغمالیوں کے جاری مسئلے کو حل کرنے میں امریکہ کی مدد کرنے کے بارے میں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ صرف پچھلے سال اسلام آباد نے جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کے تعاون سے 192فلسطینی میڈیکل اور ڈینٹل کے طلبہ کو پاکستان میں تعلیم مکمل کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔

اس اقدام کا مقصد وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو فلسطین دوست بنا کر پیش کرنا اور مقبولیت حاصل کرنا تھا۔ یہ اس بات کا اشارہ بھی تھا کہ پاکستان کچھ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔

مزید برآں، حماس نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کے تبادلے کے انتظام کے تحت اسرائیل کی طرف سے رہا کیے گئے تقریباً15فلسطینیوں کو لینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے اس دعوی کی تردید کی ہے۔ یہ انکار منطقی ہے کیونکہ حکومت فلسطینیوں کی نقل مکانی میں شریک نہیں ہونا چاہے گی۔ سعودی عرب، اردن اور مصر جیسی اہم علاقائی ریاستوں نے بھی غزہ کے باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیے جانے کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔

اس طرح کا عوامی کردار ادا کرنے سے حکومت پاکستانیوں کی اکثریت کی نظروں میں غیر مقبول ہو جائے گی، جن کے لیے باقی مسلم دنیا کی طرح غزہ ایک اہم فالٹ لائن ہے۔ تاہم اگر حماس کا دعویٰ درست ہے، جیسا کہ اسلام آباد کے کچھ ذرائع بھی بتا رہے ہیں، تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ خود کو ایک امن ساز کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کرر ہی ہے اور ثالثی میں کردار کی تلاش میں ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اقدام پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے امکانات کو بہتر نہیں کرے گا، یہ وہ چیز ہے جس کے لیے غزہ بحران سے پہلے آہستگی سے راہ ہموار کی جا رہی تھی۔

اس حکمت عملی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے اپنے عسکری مسائل کو ہوا دے سکتی ہیں۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ ان گروہوں پر ہمیشہ نظر رکھ سکتی ہے، لیکن انہیں مزید خطرناک بننے سے روکنے کے لیے کسی فول پروف طریقے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ 2002میں سابق صدر پرویز مشرف پر ہونے والے حملے اس کی ایک مثال ہیں۔

مزید برآں، یہ بھی ضروری نہیں کہ بھارت جیسے پڑوسی کو خاص طور پر سکیورٹی پر دوبارہ انگیج کرنے اور اختلافات دور کرنے کے لیے قائل کیا جا سکے۔

Ayesha Siddiqa
+ posts
عائشہ صدیقہ ایک آزاد اسکالر، مصنفہ اور کالم نگار ہیں جو جنوبی ایشیا اور اسلام کے عسکری امور اور سیاست میں مہارت رکھتی ہیں۔