حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے انتخابات رواں ماہ 25 جولائی کو منعقد ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں بھی نئے ناموں کے ساتھ اس الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم تحریک لبیک پاکستان کالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود اپنے اصل نام سے ہی اس الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔
موجودہ الیکشن سے قبل الیکشن کمیشن نے 13 ویں آئینی ترمیم کے بعد تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے بعد از سر نو رجسٹریشن کا عمل شروع کیا تھا۔ آئینی ترمیم کے بعد پارٹی رجسٹریشن کا عمل زیادہ پیچیدہ کیا گیا اور پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کے نظریہ، دو قومی نظریہ اور پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سیاسی پروگرام رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کو نہ صرف غیر قانونی قرار دیا گیا بلکہ انہیں رجسٹریشن کے عمل سے بھی محروم کر دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر 32 سیاسی جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے اور انہیں انتخابی نشانات بھی الاٹ کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان میں قائم بڑی مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی انہی انتخابی نشانات کے ساتھ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی رجسٹریشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ تاہم کچھ ایسی جماعتیں بھی رجسٹرڈ کی گئی ہیں جو ماضی میں دیگر ناموں کے ساتھ عسکری سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نئے ناموں کے ساتھ انہوں نے کام شروع کیا ہے۔
’جموں و کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ‘ کے نام سے رجسٹرڈ ہونے والی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان ’کرسی‘ الاٹ کیا گیا ہے اور اس جماعت نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 20 سے زائد حلقوں میں اپنے امیدواران نامزد کئے ہیں۔ مذکورہ جماعت قبل ازیں لشکر طیبہ کے نام سے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکری سرگرمیاں کرنے والی ایک بڑی جماعت کے نام سے جانی جاتی تھی، بعد ازاں لشکر طیبہ کو کالعدم قرار دیا گیا تو اس جماعت نے جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرمیاں جاری رکھیں۔ چند سال قبل ان دونوں ناموں کو بھی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا جس کے بعد اس جماعت نے ’تحریک آزادی جموں کشمیر‘ کے نا م سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جبکہ پاکستان میں ’ملی مسلم لیگ‘ کے نام سے انتخابی سیاست میں حصہ لیا گیا۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں اب اس جماعت نے ’جموں و کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ‘ کے نام سے انتخابی سیاست کا آغاز کیا ہے۔
’راہ حق پارٹی‘ کے نام سے رجسٹر ہونے والی سیاسی جماعت مجموعی طور پر تیسرے عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ یہ ’جماعت سپاہ صحابہ‘کے نام سے پاکستان میں عسکری سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے اور شیعہ کمیونٹی پر حملوں کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے۔ تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد ’راہ حق پارٹی‘ کے نام سے انتخابی سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ’اہل سنت والجماعت‘ کے زیر سایہ کالعدم عسکری تنظیم ’جیش محمد‘ کے علاوہ ’سپاہ صحابہ‘ اور لشکر جھنگوی بھی اپنی بنیادیں رکھتی ہیں اور یہ سب جماعتیں بھی مشترکہ طور پر ’راہ حق پارٹی‘ کے نام پر ’استری‘ کے انتخابی نشان پر انتخابی سیاست میں حصہ دار بن رہی ہیں۔
’تحریک جوانان پاکستان‘ کے نام سے بھی ایک جماعت کی رجسٹریشن کی گئی ہے اور یہ جماعت بھی ’چاند‘ کے انتخابی نشان سے پونچھ کے ایک حلقہ سے انتخابی سیاست میں حصہ لے رہی ہے۔ اس جماعت کے امیدوار لاکھوں روپے انتخابی حلقہ میں تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ ’تحریک جوانان پاکستان‘ نامی تنظیم کی بنیاد سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل نے رکھی تھی اور انکے صاحبزادے عبداللہ حمید گل اس جماعت کے سربراہ ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل کی وفات کے بعد عبداللہ گل اور انکی بہن عظمیٰ گل کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یہ جماعت 2 حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ تاہم عظمیٰ گل کے زیر سرپرستی چلنے والے دھڑے نے اپنی جماعت کا نام بھی تبدیل کر لیا ہے اور انتخابی سیاست میں بھی حصہ نہیں لیا ہے۔ یہ جماعت بھی جہاں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکری تحریک کی دعویدار ہے اور پاکستان میں قبضہ مافیا اور چوری گاڑیوں سمیت منشیات کے کاروبار سے تعلقات کے الزامات کی زد میں رہتی ہے۔ تاہم عسکری تحریک میں ان کے براہ راست کردار کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ اس جماعت کی جانب سے ترقی پسند اور قوم پرست کارکنان کے خلاف سیاسی پروگرامات کا انعقاد تواتر سے کیا جاتا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے الیکشن کمیشن میں ’پاک کشمیر پارٹی‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت ایسی بھی رجسٹر کی گئی ہے جس کو ’عسکری ٹینک‘ انتخابی نشان الاٹ کیاگیا ہے۔ تاہم اس جماعت کی جانب سے کوئی امیدوار نامزد نہیں کیا گیا ہے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر بشارت علی خان کا کہنا ہے کہ ”ریاستی ایما پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو نام تبدیل کر کے سرگرمیاں جاری رکھوائی جاتی رہی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کی وجہ سے ان تنظیموں کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔ تاہم ان جماعتوں کا جو کردار رہا ہے اس کو تبدیل نہیں کیا جا رہا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے قوانین بنا کر کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن جس طرح ہمارے تحفظات تھے بلکہ اسی طرح سے ریاست نے انسداد دہشت گردی کے قوانین کو ترقی پسند انقلابیوں کے خلاف استعمال کر کے انہیں عوامی حقوق کی جدوجہد سے روکنے کی کوشش کی ہے، جبکہ دہشت گرد تنظیموں کو ریاستی سرپرستی میں نہ صرف محفوظ رکھا گیا ہے بلکہ وہ ہر طرح کی سرگرمیاں کرنے میں آزاد ہیں۔ اب تو وہ الیکشن لڑنے کے عمل میں بھی شریک ہیں۔“
انکا کہنا تھا کہ ”جس منصوبہ بندی کے تحت ان تنظیموں کو سماجی بنیادیں دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس میں ریاست کو کسی صورت کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ ماضی میں بھی انہوں نے انقلابیوں کا راستہ روکنے کیلئے مسلح حملے اور پروپیگنڈہ کیاہے لیکن انہیں ہر بار کامیابی ملی ہے۔ تحریکوں کے مرکز ’پونچھ‘ پر خصوصی توجہ مرکوز کر کے اس طرح کے عناصر کو یہاں سماجی بنیادیں دلوانے کیلئے سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔لیکن ہر بار کی طرح بالادست قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتخابات کے نتائج میں واضح ہو جائے گا کہ ریاستی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو عوام میں کتنی پذیرائی حاصل ہے۔“