فاروق سلہریا
بظاہرمیجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے، بدھ کے روز عراق میں امریکی اہداف کو نشانہ بنا کر ایران نے ایک طرح سے باقاعدہ جنگ شروع کر دی ہے۔ یہ جنگ کس حد تک پھیلے گی؟ حتمی جواب تو نہیں دیا جا سکتا۔ غالب امکان یہ ہے کہ افغانستان اور عراق کے تجربے کے بعد امریکہ اب فوجیں ایران نہیں بھیجے گا۔ اگر تو صدر ٹرمپ نے، جو اگلے سال انتخاب بھی لڑ رہے ہیں، معاملات کو مزید بگاڑنا بھی چاہا تو امریکی انحصار فضائی بمباری اور میزائل یا ڈرون حملوں پرہی ہو گا۔ امریکہ میں جنگ مخالف مظاہروں نے عوامی شکل اختیار کی تو بھی ٹرمپ انتظامیہ ایران پر زیادہ دیر اور زیادہ بڑی جارحیت نہیں کر سکے گی۔
ادھر ایران کی کوشش ہو گی کہ خود کش حملہ آوروں اور اپنی پراکسی فورسز کو استعمال میں لا کر جس قدر تابوت امریکہ بھیج سکے، بھیجے۔ ایسے میں ایک بات طے ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ و جدل اور بد امنی کا ایک اور محاذ کھل چکا ہے۔ ایسے میں سوشلسٹ کیا موقف اختیار کریں؟
جنگ اور امریکی جارحیت کی مکمل مخالفت
پہلی بات:امریکی اور یورپی سامراج کی مداخلت اس خطے میں بد امنی کی تاریخی اور بنیادی محرک رہی ہے۔ عرب ممالک اس وقت پانچ غیر ملکی قبضوں کا شکار ہیں: امریکہ، روس، اسرائیل، ایران اور ترکی۔ امریکی سامراج کی مخالفت اور مداخلت کے ساتھ ساتھ باقی چاروں مداخلتوں کی بھی مخالفت کرنا ہو گی۔ امریکہ اس خطے کا دوست ہے نہ روس۔
دوم: امریکہ اور ایران کی موجودہ جنگ میں بہت ساری منافقت دونوں جانب سے شامل ہے۔ دونوں نے گیارہ ستمبر کے بعد کئی اتحاد بنائے: طالبان کا خاتمہ، صدام حسین کا انجام، داعش کے خلاف جنگ! ہر دفعہ ایک عملی اتحاد تہران اور واشنگٹن کے مابین نظر آیا۔ ماضی میں بھی جب اَسی کی دہائی میں ایران عراق جنگ ہوئی تو اسرائیل نے بھے ایران کو اسلحہ بیچا (جو امریکی آشیر باد کے بغیر ممکن نہ تھا) اور امریکہ بھی گاہے بگاہے مدد دیتا رہا (گو امریکہ صدام کو بھی تھپکی دیتا رہا)۔ یاد ِ ماضی کا یہ عذاب اس لئے بھی دہرانا ضروری ہے کہ ایران کو ”سامراج مخالف“ ثابت کرنے والے حلقوں کو خبر ہو جائے۔
ہاں امریکی منافقتیں کہیں بڑی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بالخصوص مسلسل ایران کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ 2018 ء میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کیا گیا۔ پچھلے سال ایران پر تازہ معاشی پابندیاں لگائی گئیں۔ پابندیوں کا نقصان ایرانی عوام کو ہوتا ہے نہ کہ باریش ارب پتیوں کو لہٰذا ایران پر امریکی پابندیوں کی کھل کر مخالفت ہونی چاہئے۔ اسی طرح، امریکہ ایک سامراجی طاقت ہے جو خطے میں ایک عرصے سے بد امنی، مذہبی آمریتوں، اسرائیلی قبضے اور نیو لبرل معیشت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ دنیا کے باقی خطوں کی طرح امریکہ یہاں بھی نفرت کی علامت ہے۔ اس کی موجودگی جلتی پر تیل کا کام دیتی رہے گی۔
ایرانی مذہبی آمریت کی حمایت بھی ممکن نہیں
امریکہ کی مخالفت کا ہرگز مطلب ایران کی حمایت نہیں۔ خطے سے سامراجی انخلا کے ساتھ ساتھ، دیرپاامن اور ترقی کی ایک بنیادی شرط مشرق وسطیٰ سے فوجی و مذہبی آمریتوں کا خاتمہ بھی ہے۔ اس خطے کا کوئی ایسا تنازعہ نہیں جس میں سعودی عرب، ترکی اور ایران ملوث نہ ہوئے ہوں۔ ہر جگہ ان ملکوں کی مداخلت طبقاتی اور قومی تنازعات کو شیعہ سنی لڑائی بنا دیتی ہے۔
نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق تو گذشتہ چند دنوں میں جو ہوا، اس کے لئے ایران نے جان بوجھ کر امریکہ کو اکسایا تا کہ عراق میں جاری عوامی تحریک کو دبایا جا سکے۔
جنرل سلیمانی کے جنازے دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ایران میں چند ہفتے پہلے ابھرنے والی عوامی تحریک بھی پیچھے چلی گئی ہے۔ اس تحریک کو ہی نہیں، ماضی مں اٹھنے والی ہر جمہوری تحریک کو ایرانی مذہبی آمریت نے خونی انداز میں کچلا ہے۔ ایران کے علاوہ یہ آمریت عراق، شام اور لبنان میں بھی جمہوری اور پر امن تحریکوں کے سینے میں خنجر اتار چکی ہے۔ ضرورت اس آمریت کی حمایت کرنے کی نہیں، جمہوریت کی ہے۔
اسی طرح، پاکستانی ترقی پسندوں کا ممکنہ عالمی جنگ مخالف، بالخصوص امریکہ میں جنم لنے والی امن تحریک، کا حصہ بننا چاہئے۔ ہمارا نعرہ ہونا چاہئے:
جنگ نہیں امن!
آمریت نا منظور، جمہوریت زندہ باد!
غیر ملکی مداخلتیں نا منظور!
مرگ بر سامراج!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔