دنیا

امریکہ ایران کشیدگی: مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر؟

قیصرعباس

اطلاعات ہیں کہ آبنائے ہرمز میں کوہِ مبارک کے قریب گزشتہ ہفتے ایران نے ایک امریکی جاسوسی ڈرون مار گرایا جس کے بعد امریکہ ایران پر فضائی حملے کی مکمل تیاری کرچکا تھا۔ لیکن حملے سے صرف دس منٹ پہلے صدر ڈو نلڈ ٹرمپ کے حکم پراس کو موقوف کر دیا گیا۔

اس صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مشرقِ وسطیٰ آ ج ایک خوفناک کشیدگی کے دہانے پر کھڑاہے۔ جس میں کسی ایک فریق کی غلطی کا خمیازہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کومعاشی بدحالی، انسانی جانوں کے زیاں اور سیاسی جنگ کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا۔

حالات اِس نہج تک کس طرح پہنچے اور پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک پر اس کشیدگی کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ ان اہم سوالات کا جواب صورتِ حال کے تاریخی پس منظر اور اس سے جڑے اہم پہلوؤں کے تجزیے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

آبنائے ہرمز

مبصرین کا اندازہ ہے کہ اس خطرناک کھیل کا آغاز امریکہ، اسرائیل اور سعودی عر ب نے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لئے کیاہے۔ چارسال پہلے 2015 ء میں یورپی ممالک اور امریکہ میں اس وقت کے صدر باراک اوباما نے ایران سے ایک مربوط معاہد ہ کیا تھا جس کے تحت ایران پر معاشی پابندیاں ہٹانے کے عوض ایٹمی اسلحہ بنانے کی سرگرمیوں پر قدغنیں لگا ئی تھیں جن کے دور رس نتائج حاصل ہورہے تھے اور ایران اپنے ایٹمی منصوبوں کو بالائے طاق رکھنے پر راضی بھی ہوگیاتھا۔

صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعدامریکہ نے اس معاہدے کو یکطرفہ طورپر منسوخ کر دیا۔اس کے بعدسے امریکہ ایران پر فوجی اور سفارتی دباؤ بڑھاتا رہا ہے۔ اس حکمت عملی کامقصد یہ ہے کہ ایران کو مذاکرات کی میز پر لاکر اسے میزائل اور دوسرے ایٹمی اور غیر ایٹمی اسلحہ کے حصول اور انہیں بنانے کی اندرونی صلاحیت سے بھی محروم کیا جا سکے۔

اس حکمت ِعملی کے تحت ایران کو ایک ایسی فوجی طاقت بننے سے باز رکھنا ہے جوایک دن خطے کے دوسرے ملکو ں خصوصا ًاسرائیل کے لئے خطرہ بن جائے۔ لیکن ایران اس دباؤ کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے بضد ہے کہ اگر اس معاہدے کو یک طرفہ طورپر منسوخ کیا گیا تو وہ بھی معاہدے کی مکمل منسوخی اور یورینیم کی افزودگی میں اضافے کے اقدامات اٹھائے گا۔

ایران اس بڑھتی ہوئی کشیدگی میں سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہے اور کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکاری ہے۔ لیکن ایرانی رہنماؤں نے مختلف مواقع پر جنگ نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ دوطرفہ مذاکرات سے بھی انکار نہیں کیا۔

پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی نے ڈرون گرانے کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اسی دن واضح الفاظ میں کہاتھا: ”ایران کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن ہم اپنا دفاع کرنے کے لئے تیار ہیں جس کا اظہار آج کے ا قدام سے بھی واضح ہوجانا چاہئے۔ امریکہ مذاکرات کے ذریعے ایران کو جدید اسلحہ سے محروم کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم اپنا دفاع کرنے کے قابل بھی نہ رہیں جو ناممکن ہے۔ شام، لبنان، فلسطین اور یمن میں ناکامیوں کے بعد اب امریکہ اور اس کے حواریوں کا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔“

ادھرواشنگٹن میں صد ر ٹرمپ کی جانب سے ممکنہ فضائی حملے کے فیصلے اور پھر اس کی تنسیخ کو سرکاری موقف کی کمزوری قرار دیاجا رہا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی، بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اور صحافی وائٹ ہاؤس اور انتظامیہ کی اس گو مگو کی کیفیت کو ملکی مفادات کے خلاف اقدامات سے تعبیر کر رہے ہیں۔

سابق سیکرٹری دفاع ولیم کوہن نے سی این این سے ایک انٹرویو میں کہاکہ”صدر ٹرمپ کا یہ جواز کہ حملے سے 150 افراد کی ہلاکت کے خطرے کے پیش نظر انہوں نے اسے منسوخ کیا دراصل حکومت کی کمزوری کی علامت ہے اگرچہ حملہ نہ کرنا بر ا فیصلہ نہیں ہے۔ اس قسم کے فیصلوں میں پہلے ہی سارے پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیاجاتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذکر فیصلے سے پہلے زیربحث نہ آیا ہو۔“

مبصرین کاعام خیال یہی ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیرخارجہ مائیک پومپیو اس حملے کے حق میں تھے لیکن صدر نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اتحادی ملکوں خصوصا ًیورپی ریاستوں کی مخالفت کے پیش نظریہ حملہ منسوخ کیا ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں ہے کہ ایران کے سخت موقف کے پسِ منظر میں اس حملے کے دور رس نتائج نکل سکتے تھے جن سے عالمی معیشت، تیل کی سپلائی اور علاقائی جنگ جیسے سنگین خطرات بھی جنم لے سکتے تھے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی میں افغانستان، عراق، شام اور دنیا بھرمیں امریکی فوجی اڈوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ لیکن خلیجِ فارس سے تیل کی سپلائی کو بند کیے جانے کے امکانات فوری طورپرمحسوس کیے جانے کی امید تھی۔

اگر یہ جنگ مزید پھیلتی تو سعودی عرب میں تیل کی صنعت اور سپلائی شدید متاثر ہوتی اور متحدہ عرب امارات اور اسرائیل بھی اس کی لپیٹ میں آسکتے تھے۔ شاید ان ہی امکانات کے پیش ِنظر واشنگٹن میں عرب اور خلیجی ریاستوں کے انسٹیٹیوٹ (AGSIW)کے سینئر ریزیڈنٹ سکالرحسین آبش کا کہنا ہے کہ”خطے کے عرب ممالک اگرچہ اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں مگر وہ علاقے میں خطرناک حد تک پھیلتی کشیدگی کی حمایت نہیں کریں گے۔ خلیج کے عرب ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یہاں بڑھتی ہوئی کشیدگی نہیں چاہتے۔“

دوسری طرف اگرچہ اس تنازعے میں پاکستان براہ راست شامل نہیں ہے لیکن ایران کا پڑوسی ہونے کے ناطے اس کشیدگی سے باہر رہنا اس کے لئے ناممکن ہوتا جا رہاہے۔ظاہری طورپر ویسے تو سیاسی رہنما غیر جانبداری کا راگ الاپ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سول حکومت مکمل طورپر اسٹیبلشمنٹ کے تابع ہے جو پہلے ہی خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب سے بھرپور تعاون کر رہی ہے۔

مستقبل قریب میں یہ بھی واضح ہوجائے گاکہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ موجودہ صورت حال میں پڑوسی ملک ایران سے پاکستان کے حالات سدھرنے کے بجائے مزید کشیدہ ہوں گے۔

کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے (مارکس کے بقول: دوسری بار مذاق کے طور پر) اور شاید مشرق وسطیٰ میں بھی کچھ اسی طرح ہو رہا ہے۔ صدرٹرمپ اور ان کی انتظامیہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایران کی ملاشاہی کی نظریاتی وابستگی اور فیصلہ سازی کا طریقہ کاردوسری ریاستوں سے بہت مختلف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سابق صدر اوباما کی معاشی پابندیاں ماضی میں بھی ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکیں جس کے بعد ہی مغربی ممالک نے 2015ء کا معاہدہ کیا تھا۔ گو معاشی و تجارتی پابندیاں بین الاقوامی سطح پر ایرا ن کو الگ تھلگ کرکے اس کی اقتصادی ترقی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں لیکن اس بار بھی ایران کسی قسم کی پابندیوں سے خوفزدہ نظر نہیں آ رہا۔ مشرقِ وسطی میں آج کی زمینی حقیقتیں کہہ رہی ہیں کہ اس مرتبہ تو جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ علاقے کی سیاسی کشید گی میں کمی نہیں ہوئی۔

اس بات کا انحصار کہ یہ تنازعہ پھر کب ابھرے گا امریکہ اور اسرائیل کے آئندہ انتخابات پر بھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سابق امریکی صدور کی طرح ٹرمپ بھی مقبولیت کی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کے لئے 2020ء کے انتخابات میں ایران کو قربانی کابکرا بنائے گا؟

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔