دنیا

ایران شیعوں کا، ترکی سنیوں کا اور روس عربوں کا دوست نہیں

جلبیر اشقر

جس طرح یہ محض خام خیالی ہے کہ ایران تو دراصل امریکی سامراج اور اس کے صیہونی سہولت کار، اسرائیل کے خلاف لڑ رہا ہے اور وہ اہل تشیع چاہے وہ فارس سے ہوں یا عرب دنیا سے، کے مفادات کا تحفظ کر رہاہے نہ کہ ایرانی سلطنت کے توسیع پسندانہ عزائم پورے کر رہا ہے؛عین اسی طرح یہ بھی محض خام خیالی ہے کہ: ترکی اہل سنت، وہ ترک ہوں یا غیر ترک، کی خاطر روسی سامراج سے بر سرپیکار ہے نہ کہ ترک سلطنت کی توسیع پسندی کے لئے۔

ایرانی قوم پرستی نے ایران عراق جنگ کے دوران اس انداز سے نشونما پائی کہ وہ خمینی اسٹ آئیڈیالوجی کے ساتھ شیر و شکر ہوگئی۔ اَسی کی دہائی سے گاہے بگاہے یہ ثابت ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جب بھی ایران اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کے لئے کوشاں ہوتا ہے تو ایسی ہر کوشش کی قیمت عربوں کو چکانی پڑتی ہے۔

اس سلسلے کی تازہ ترین اور غالباً اہم ترین کڑی قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے واقعات ہیں۔ ایرانی توسیع پسندی اور قوم پرستی کا ایک اظہار اردشیر زاہدی کا بیان تھا جو سوئٹزرلینڈ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ایران میں بادشاہی نظام، جسے انقلابِ ایران نے ختم کیا، کے اہم ترین نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔

اردشیر کے والد جنرل فضل اللہ زاہدی تھے۔ 1953ء میں امریکی سی آئی اے نے جب مصدق کے خلاف بغاوت کرائی تو جنرل زاہدی اس بغاوت کے اہم کردار تھے۔ کامیاب بغات کے بعد جو مجلس ِوزرا تشکیل پائی، جنرل زاہدی اس کے سربراہ تھے۔

جنرل زاہدی کے صاحبزادے اردشیر کی شادی شاہ شاہیناز پہلوی کی بیٹی سے ہوئی۔ وہ لندن میں ایران کے سفیر رہے۔ پھر وزارتِ خارجہ کے کرتا دھرتا بنے رہے۔ بعد ازاں، 1973ء میں انہیں امریکہ میں ایران کا سفیر مقرر کر دیا گیا۔ 1979ء میں انقلاب آنے تک وہ اس عہدے پر متعین رہے۔

قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد، بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ”وہ قاسم سلیمانی پر فخر کرتے ہیں کیونکہ قاسم سلیمانی حب الوطنی کی علامت تھے“۔ اردشیر نے ”اسلامی جمہوریہ“ کی حکومت اور اس کے وزیرِخارجہ جواد ظریف کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

جہاں تک تعلق ہے ترک قوم پرستی کا تو 2015ء میں جب رجب طیب اردگان نے انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت نیشنل موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) سے اتحاد کیا تو سب واضح ہو گیا۔ ایم ایچ پی کی بنیاد نصف صدی قبل کمال اسٹ جماعت سی ایچ پی میں اختلاف کرتے ہوئے ایک ایسے افسر نے رکھی تھی جس کا خیال تھا کہ سی ایچ پی نے کمال اتاترک کا راستہ ترک کر دیا ہے۔

2015ء سے اردگان اپنے سابق حریف کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ انتہاپسندانہ قوم پرستی اور توسیع پسندانہ ترک پالیسیاں لازم و ملزوم بن گئی ہیں۔ اردگان اور ایم ایچ پی کے اتحاد کی بنیاد کُرد دشمنی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کئی سال کی جنگ بندی کے بعد کردوں سے پھر جنگ چھیڑ دی گئی۔ اس اتحاد کے نتیجے میں ایم ایچ پی سیاست اور بالخصوص پارلیمان کے اندر براجمان ہو گئی ہے۔

اردگان اور ایم ایچ پی کے اتحاد کا تازہ ترین اظہار یہ ہے کہ دو ہفتے قبل ترک پارلیمان نے لیبیا میں ترک فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ترک فوج لیبیا میں فیاض السراج کی قومی مصالحتی حکومت (جسے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے) کا دفاع کرے گی۔ ترک حزب ِ اختلاف نے اس کی مخالفت کی کیونکہ اپوزیشن کے خیال میں ترک فوج ایک دور دراز علاقے میں جنگ کے اندر ملوث ہو جائے گی۔ ویسے ایسا ہونے کا امکان کم ہی ہے۔

یہ فیصلہ اس پس منظر میں لیا گیا ہے کہ ولادیمیر پوتن نے ترکی کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران پوتن اور اردگان نے اس گیس پائپ لائن کا افتتاح کیا جو بحرِ اسود سے ہوتی ہوئی ترکی کے یورپی حصے میں پہنچتی ہے۔ یہ دوہری پائپ لائن ہے جو ترکی کو گیس فراہم کرنے کے علاوہ یورپ بالخصوص جرمنی کوبھی گیس کی فراہمی کا ایک ذریعہ ہوگی۔ اس طرح روس کا یوکرائن پر انحصار بھی ختم ہو جائے گا۔

یاد رہے، دو ماہ قبل ترکی نے لیبیا کی سراج حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے بحیرہ روم میں سمندری حدود کا تعین کیا۔ حدبندی کے اس معاہدے کا تعلق بھی گیس کے ذخائر سے ہے اور اسی کارن ترکی اور یونان کے بیچ میں کشیدگی پیدا ہونے لگی ہے۔

ترکی ”ترک جمہوریہ شمالی قبرص“ کو تسلیم نہیں کرتا حالانکہ یورپ اور عالمی برادری اسے تسلیم کرتے ہیں۔ 1974ء میں ترکی نے اس جزیرے پر فوجی قبضہ کر لیا اور اسے کلونیل انداز میں چلاتا رہا۔

مندرجہ ذیل حقائق کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترکی اگر لیبیا میں سراج حکومت کے دفاع کے لئے فوج بھیج رہا ہے تو یہ عالمی قانون کی پاسداری کے لئے یا امہ کے غم میں نہیں کر رہا۔

سراج حکومت کے مخالف، خلیفہ ہفتر، کو مصر، متحدہ عرب امارات اور روس کی حمایت حاصل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لیبیا میں مداخلت کے ذریعے ترکی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کر رہا ہے۔

ترکی اور روس شام میں متحارب گروہوں کی حمایت کرتے رہے ہیں مگر گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرتے وقت ترکی اور ماسکو نے شام میں اپنے اختلاف کو معاہدے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

اسی طرح، لیبیا میں بھی ترکی سراج حکومت اور روس خلیفہ ہفتر کی (جس کے لشکری یوکرائن میں بھی کام آئے)حمایت میں سر گرم ہیں مگر ترک روس اتحاد برقرا رہے گا۔ دونوں کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں۔

پوتن ترکی کے اس بیان سے فائدہ اٹھا رہا ہے کہ روس ثالثی کروا رہا ہے۔ اس بیان کے بعد پوتن اپنا پسندیدہ کھیل کھیلے گا یعنی ثالثی بھی کروائے گا اور اہم ترین پتے بھی اس کے ہاتھ میں ہوں گے۔ یہی کچھ اس نے شام میں کیا۔

Gilbert Achcar
Website | + posts

جلبیر اشقر اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن کے پروفیسر ہیں۔ وہ مذہب کے سیاسی کردار اور بنیاد پرستی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔