دنیا

حزب اللہ کا مخمصہ: ایران کو بچائے یا خود کو!

جلبیراشقر

لبنان کی حزب اللہ ایک انوکھا مظہر ہے۔ اِسے اِس کے کسی ایک پہلو تک محدود کرنے کی کوئی بھی کوشش یا تو غیر منصفانہ ہوگی یا بہت زیادہ تقدیس کی حامل قرار پائے گی۔

حزب اللہ کی انتہائی پیچیدہ نوعیت،اِس کی پیدائش کے حالات سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا آغاز ایک خمینی وادی گروہ کے طور پر ہوا۔ یہ گروہ ’امل تحریک‘سے نکل کر 1982 میں لبنان پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک نظریاتی طور پر پرعزم ’اسلامی مزاحمت‘قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔امل، افواج مقاومہ لبنان (حزب مزاحمت لبنان) کا مخفف ہے۔

جس تقسیم کے نتیجے میں پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، اس کے دو مقاصد تھے۔ ایک، ایران میں 1979 کے ’اسلامی انقلاب‘کے ذریعے قائم کی گئی حکومت کے ساتھ نظریاتی وفاداری رکھنا۔

دوسرا،صہیونی قبضے کے خلاف ایک پرعزم اور ریڈیکل موقف اپنانے کی خواہش، جو امل کے اس متعلق اختیار کیے گئے مبہم موقف کے برعکس ہو، خاص طور پر جنوبی لبنان میں جو موقف اپنایا گیا۔

لبنان میں ایران سے وابستہ ایک مزاحمتی تحریک کی تعمیر کی شکل میں، خمینی رجیم کو 1980 میں اس کی سرزمین پر حملہ کرنے والی عراقی بعث وادی حکومت کے خلاف اپنی جنگ میں ایک بڑا نظریاتی ہتھیار نظر آیا۔صہیونی ریاست کے خلاف حقیقی مزاحمت کی سرپرستی نے تہران کو صدام حسین کے فارس مخالف عرب اسلامی دعوؤں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے اور عربوں اور فارس کے درمیان قوم پرستانہ خلیج کو ختم کرنے کے قابل بنایا۔

عرب ایرانی قوم پرستانہ تقسیم کے ذریعے بغداد نے عراقی شیعوں کو خمینی کے اثر سے بچانے کی کوشش کی تھی۔ بڑی شیعہ آبادی والی خلیجی عرب ریاستوں نے بھی یہ ہتھیار استعمال کیا۔

ایران نے فلسطین کے مسئلے پر تمام عرب حکومتوں، بالخصوص سعودی مملکت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، اس گھیرے کو توڑا جسے ریاض اپنے ارد گرد تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا تھاتاکہ عام طور پر سنیوں کو ’اسلامی انقلاب‘ کے اثر سے محفوظ رکھا جا سکے۔

یوں حزب اللہ بیک وقت صیہونی غاصب کے خلاف لبنانی مزاحمت کی عملی شکل اور تہران کے ایک بازو کے طو رپر پیدا ہوئی۔ یہ مشرقی عرب میں ایران کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے اس نظریاتی عسکری نیٹ ورک کا ایک حصہ تھی، جو بعد ازاں امریکہ کی جانب سے عراق کی بعث وادی حکومت کا تختہ الٹنے اور بغداد میں تہران کے حامیوں کو بااختیار بنانے۔۔۔اور اس کے بعد شام کی بعث وادی حکومت کی جانب سے اپنے خلاف اٹھے والے عوامی انقلاب سے بچنے کے لیے ایران کا سہارا لینے کے نتیجے میں نمایاں طور پر پھیلتا گیا۔

(بغداد اور دمشق کی حکومتوں کی انحطاط پذیری کے بعد بعث وادی نظریہ کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرنے کے لیے اس تاریخی تضاد کی نشاندہی کرنا کافی ہے، لیکن تہران بھی فرقہ وارانہ خیالات کو اپنے پان اسلامی نظریہ پر ترجیح دیتا ہے)۔

حزب اللہ نے، ایران میں جو کچھ خمینی حکومت نے کیا تھا،فطری طور پر اس کی تقلید کی۔خمینی نے شاہ ایران کے خلاف جدوجہد میں شامل دیگر تمام گروہوں، بالخصوص بائیں بازو کو کچل دیا۔حزب اللہ نے لبنان پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت پر اپنی اجارہ داری کو زبردستی مسلط کیا اور کمیونسٹوں کے زیر قیادت ’لبنانی مزاحمتی محاذ‘ کوکچل دیا۔

اس کے بعد حزب اللہ نے لبنان میں شیعہ آبادیوں والے علاقوں میں، امل سے لے کر لبنانی کمیونسٹ پارٹی تک، اپنے تمام حریفوں کے ساتھ کشیدہ بقائے باہمی کے اصول پر عمل کیا۔

یہ سب ایک ایسے ملک کی مخصوص صورت حال کے مطابق تھا، جہاں فرقہ وارانہ تکثیریت کو سیاسی تکثیریت کے ساتھ جوڑنا پڑتا ہے۔ اس طریقے سے،1992میں اس کے سیکرٹری جنرل بننے والے حسن نصر اللہ کی قیادت میں،پارٹی کی لبنان کے سیاسی اور ادارہ جاتی نظام میں ایک بہت ہی ہائبرڈ امتزاج میں شمولیت کی راہ ہموار ہوئی۔

ایک طرف حزب اللہ نے لبنانی ریاست کے اندر اپنی ایک ریاست تشکیل دی۔ حزب اللہ کی ایک اپنی فوج،سیکورٹی آپریٹس اور سول ادارے تشکیل دئے۔ اس طرح لبنانی ریاست مزید کمزور ہوتی گئی۔ تاہم حزب اللہ کی ذیلی ریاست نظریاتی، مالی اور عسکری طور پر مکمل طور پر ایران پر منحصر ہے۔

حزب اللہ خمینی نظریے کے ساتھ ’ولایت فقیہہ‘کے اصول کے ذریعے کھلے عام اپنی وفاداری کا اعلان کرتی ہے۔ ’ولایت فقیہہ‘کا اصول مطلق العنان ملاؤں کی تھیوکریٹک حکمرانی کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔

دوسری طرف حزب اللہ ایک لبنانی دھڑا ہے جو ملک کے پیچ ورک کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے، حالانکہ اس نے اپنے ایرانی سرپرست سے نقل شدہ تمام رواج درآمد کیے ہیں۔ حسن نصر اللہ اس دوغلے پن کی تجسیم تھے۔وہ ایسے شخص تھے، جنہوں نے ایک بار تقریر میں یہ فخر یہ کہا تھا کہ ان کی جماعت ’ولایت فقیہہ کی جماعت‘ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دل سے لبنانی رہنما بھی تھے۔ اپنی پارٹی کے کارکنوں اور اہل لبنان سے اس زبان میں بات کرتے تھے، جو ان کے دل میں اتر جاتی تھی۔

نصراللہ لبنانی سیاست کے لیے منفرد نوعیت کے عجیب و غریب اتحادوں کے ذریعے اپنے لبنانی پہلو کو مضبوط بنانے کے لیے اس دوغلے پن کو برقرار رکھنے کے خواہاں تھے۔

خاص طور پر مارونائٹ رہنما میشال عون کے ساتھ ان کا اتحاد اس کی ایک مثال ہے۔ میشال عون 2006 تک شامی حکومت کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2004 کی قرارداد 1559 کی تیاری میں اپنے کردار پر فخرکرتے تھے۔ اس قرارداد میں لبنان سے شامی افواج کے انخلاء اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا کہا گیا تھا۔

حسن نصر اللہ کو اپنی پارٹی کی عوامی بنیاد اور عام لبنانی شہریوں کی بھی فکر تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے 2006 میں اسرائیلی جارحیت کے نتائج پر افسوس کا اظہار کیا، جس کے بعد ان کی پارٹی کی جانب سے لبنان کی جنوبی سرحد پر کارروائی کی گئی۔ تاہم حزب اللہ نے شام کی اسد حکومت کو بچانے کے لیے اپنی افواج کو جنگ میں جھونکنے کے لیے تہران کی دعوت کا جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

شام میں مداخلت حزب اللہ کی اس بنیادی دلیل کے خلاف تھی جس کے مطابق لبنانی ریاست سے ماورا، آزادانہ طور پر ہتھیار رکھنے کا مقصد لبنان کا دفاع کرنا قرار دیا گیا تھا۔

حزب اللہ نے لبنان کو تباہی کی صہیونی مشین سے بچانے اور ملک کے لیے ڈھال کے طور پر اپنی شبیہ کو مضبوط کرنے کے گزشتہ برسوں کے بیانیے کو برقرار رکھا ہے۔ پارٹی نے 2000 میں اسرائیلی فوجیوں کو لبنان سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا اور 2006 میں دوبارہ اسرائیل کو زبردست نقصان پہنچا کر اپنی اہمیت منوائی۔

اس کے بعد ایران نے اپنے میزائلوں اور راکٹوں کا ذخیرہ بہتر بنایا۔ اس کے بعد حزب اللہ کو بھی یقین ہوگیا کہ اس نے صیہونی ریاست کے مقابلے پر کسی حد تک طاقت کا توازن قائم کر دیا ہے۔ حزب اللہ نے شام میں اپنی مداخلت کو اسرائیل کے خلاف جنگ کے طور پر پیش کیا۔اس کا مقصد ’مزاحمت کے محور‘کو محفوظ رکھنا بتایا گیا۔اس کے باوجود پچھلے مہینے سے صہیونی ریاست اپنے اور حزب اللہ کے درمیان ’باہمی، لیکن غیر مساوی، تسدید(detterence)‘ کو ایک ’غیر متناسب جنگ‘کے ذریعے طے کرنے میں کامیاب ہوئی ہے،جس میں اس نے اپنی زیادہ فوجی طاقت کے علاوہ اپنی ذہانت اور تکنیکی برتری کو بھی استعمال کیا ہے۔

حزب اللہ اب اپنی دوہری وفاداری کے مخمصے کا سامنا کر رہی ہے، جس سے اس کے اہم مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کے رہنماؤں کا کچھ حصہ، خاص طور پر لبنانی ریاستی اداروں میں شامل سیاسی قیادت، اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2006 کی قرارداد کے مطابق دریائے لیطانی کے شمال میں انخلاء کے ساتھ ساتھ جنگ بندی کو قبول کرنے پر مائل ہے، اور لبنانی جمہوریہ کے متفقہ صدر کے انتخاب میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پارٹی دمشق کے وفادار شخص کے علاوہ کسی کو منتخب کرنے پر اصرار کر رہی ہے۔ تاہم تہران نے اس رجحان کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ تہران نے پارٹی پر زور دیا ہے کہ لبنان میں جنگ بندی کو غزہ میں جنگ بندی سے مشروط رکھنے کے اصول پر کاربند رہا جائے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ صیہونی جارحیت کا اصل زور غزہ سے لبنان میں منتقل ہو گیا ہے، یہ سب مضحکہ خیز لگ رہا ہے۔

حماس کے لیے اب یہ زیادہ معقول ہو گا کہ وہ غزہ کی پٹی میں لڑائی جاری رکھنے پر اصرار کرے،تا آنکہ لبنان میں حزب اللہ کی حمایت میں جنگ بندی ہو جائے،نہ کہ لبنان میں غزہ کے اندر جنگ بندی۔۔۔جس کا حماس کو فائدہ ہو۔۔۔کے لئے لڑائی جاری رکھنے پر اصرار کیا جائے۔ غزہ میں تحریک اب گوریلا جنگ ہی لڑ سکتی ہے۔ یہ گوریلا جنگ یقینی طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسرائیلی قبضہ باقی رہے گا، یعنی اس وقت تک جب تک کہ مستقبل قریب کے اندھیروں میں کوئی روشنی کی جھلک نظر نہ آئے۔

حقیقت یہ ہے کہ لبنانی محاذ کو فعال رکھنے پر تہران کے اصرار کا غزہ کے لوگوں اور خود لبنان کے عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، جن میں شیعہ بھی شامل ہیں، اور جنہوں نے صیہونی جارحیت کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا اور بھگت رہے ہیں۔ اس کا مقصد حزب اللہ کے تسدیدی کردار کو اس وقت تک فعال رکھنا ہے جب تک کہ ایران کو اس امکان کا سامنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ چھیڑ دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ نے اب تک اپنے فوجی ہتھیاروں میں سے مضبوط ترین ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا ہے، کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایران کے دفاع کے لیے ہیں، نہ کہ لبنان کے دفاع کے لیے اور نہ ہی خود جماعت کے اپنے دفاع کے لئے۔

یہ مخمصہ اور تضاد اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے، جب حزب اللہ کے مقبول اڈے کو نشانہ بنانے والی اسرائیلی قتل و غارت اور تباہی میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔ چونکہ یہ پارٹی کے واضح مفاد میں ہے کہ فائربندی کی جائے اور پسپائی اختیار کی جائے، جیسا کہ کسی بھی طاقت کو اپنے زیادہ مضبوط اورطاقتور دشمن کی جارحیت کے سامنے کرنا چاہیے۔ خاص طور پرجب دشمن اس کی قیادت کے ایک بڑے حصے کوختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہو۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ حزب اللہ ایک ایسے سماجی اور سیاسی ماحول میں کام کرتی ہے جو کسی آتش فشاں سے کم نہیں۔ ایسے حالات میں نقصانات کو محدود کرنے اور پسپائی کے شکست میں تبدیل ہونے کے خطرے سے بچنے کے لیے جزوی پسپائی ایک منطقی بات ہو گی۔

تاہم ایک اور واضح مصیبت یہ ہے کہ حزب اللہ تہران پر انحصار کرتی ہے۔ ایران کے بغیر پارٹی اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی سماجی بنیاد کے لئے درکار مالی وسائل مہیا نہیں کر سکتی۔ ایران کے بغیر وہ اپنی فوجی طاقت کو دوبارہ تعمیر نہیں کرسکتی، جیسا کہ اس نے 2006میں دونوں مرتبہ کیا تھا۔

(ترجمہ: حارث قدیر، فاروق سلہریا)

Gilbert Achcar
Website | + posts

جلبیر اشقر اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن کے پروفیسر ہیں۔ وہ مذہب کے سیاسی کردار اور بنیاد پرستی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔