زاہد علی
پوری دنیا خصوصاً فرانس کے محنت کشوں کی جدوجہد میں استحصال زدہ طبقات اور مظلوموں کے لئے بڑے اسباق موجود ہیں۔ خاص طور پر تحریکوں کو منظم کرنے والوں کے لیے۔ سرمایہ دارانہ بحرانوں کے حالات میں طویل مدتی کمزور ہوتے حکمران طبقات نے 1970 ء کی دہائی کے آخر میں اپنا انتقام لینے اور جنگ کے بعد کے محدود لیکن حقیقی معاشرتی فوائد کو واپس لینے کا عندیہ دیا۔ حکمران طبقات کی مسلط کردہ نیو لبرل پالیسیاں آج معاشرتی رجعت پسندی، عدم مساوات، مالی اعانت، جبر اور عسکریت پسندی کے زیر سایہ اب مزید تقویت پذیر نہیں ہوسکتی ہیں۔ مستقل بحران کاخطرہ سرمایہ داری کو کمزور کرتا ہے اور اس کے مابین سامراجی تناؤ کو تیز کرتا ہے۔ مزید معاشی تنزلی کا خطرہ اور ماحولیاتی بحران کے واضح طور پر ظاہر ہونے والے اثرات انسانوں کو پہنچنے والے نقصانات کی فہرست میں شامل کردیئے گئے ہیں، جو غریبوں اور تارکین وطن کو سخت ترین نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس بحران زدہ عالمی صورتحال کے مقابلے میں اپنی متعدد مثالوں کے باوجود عالمی سطح پر مزاحمت موجود ہے، جس کے اندر یہ تمام جہت باہمی طور پر شامل ہوتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود یہ مزاحمت بکھری ہوئی ہے۔ عسکریت پسند مزدور اتحادکی کمزوری اور اسکے ساتھ ہی سماجی جمہوری تنظیموں کے فرقے اور اسٹالنسٹ حکومتوں کے خاتمے نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ بائیں بازو کو درپیش چیلنج بہت بڑا ہے۔ دریں اثنا نو دقیانوسی حکومتوں کے ذریعے دایاں بازو، نسل پرستی اور اسکے آلہ کاروں کو تیار کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لبرل سرمایہ دارانہ حکومتیں بڑی تیزی سے اپنی انتخابی اہمیت کھو ررہی ہیں۔
لیکن اگر یہ تصویر پوری دنیا میں معاشرتی جدوجہد کی وسعت چھوڑ دیتی ہے تو یہ نامکمل ہوگی۔ فرانس میں گلیٹس جونز (پیلی جیکٹیں) تحریک، چلی میں لاکھوں نوجوانوں کے حکومت اور ریاست مخالف مظاہرے، بھارت میں مودی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور پاکستان میں پشتونوں اور طلبہ کی اپنے حقوق کیلئے چلنے والی تحریکیں بے مثال اور متضاد ضرور ہیں لیکن طاقتور اور پائیداربھی ہیں۔ یہ تمام تحریکیں موجودہ سیاسی منظرنامے کے زوال کو تیز کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کی نشاندہی کررہی ہیں۔ لوگ معاشرتی ناانصافی اور آمریت کے خلاف ایک ملک کے بعددوسرے ملک میں اٹھ رہے ہیں۔ سرمایہ داری کو دن بدن لوگ اسکے ناقابلِ اصلاح عمل کی وجہ سے پہچان بھی رہے ہیں اور اسکے خلاف بر سر پیکار بھی ہیں، کیونکہ سرمایہ داری کے سب سے زیادہ تباہ کن اور قاتل رجحانات ہی اسکی رہنمائی کرتے ہیں۔ تحریکوں میں موجود بہت ساری راہوں (زوال، آفاقی آمدنی، عام افراد، ماحولیاتی تبدیلی اور آزادی پسندانہ بغاوت وغیرہ) کے باوجود ہمارے پاس قابل اعتماد اور عام فہم متبادل نہیں ہے۔ بعض اوقات جدوجہد کی لکیریں ایک دوسرے سے طلاق یافتہ محسوس ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ایک جگہ پر ماحولیات کا دفاع اور دوسری جگہ پر حقوق نسواں موجود ہیں، کہیں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد تو کہیں عوامی حقوق اور سہولیات کا دفاع۔
یہ عام بنیاد پرست بحران خطرات سے بھرا ہوا ہے جیسا کہ ڈینیل بینسد نے کہا تھا کہ”طویل چاند گرہن کے بعدحکمت عملی کا سوال دوبارہ اپنے احیاکا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی عکاسی اس متبادل پر ہوتی ہے جسے دوبارہ تعمیر کرنا ضروری ہے، لیکن اس سے ہماری سیاسی اور سماجی قوتوں کی تنظیم اور تنظیم نو کے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں جو اکثر انتخابی منطق یا پچھلے بائیں بازو کے بغاوت پسند تصورات میں پھنس جاتے ہیں“۔
ان حالات میں، نظریاتی سطح پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، ان موجودہ آزادانہ جدوجہدکی تحریکوں کو بغیر کسی اتحاد کے متحدنہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی اتحاد تب ہی ممکن ہوسکے گا جب تحریکیں اور گروہ اپنے متعین کردہ راستوں اور اصولوں میں لچک دکھائیں گے اور جب اوپر سے بیورو کریٹک احکامات کے ذریعے تحریکوں کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ کئی دہائیوں کی شکست و حملوں کے بعد، حکمران طبقے کے میڈیا کی طرف سے بلا روک ٹوک پروپیگنڈے، انقلاب کو بد نظمی، کسی بھی متبادل کے بارے میں سوچنے اور بولنے کے لئے ضروری الفاظ کی نااہلی، جیسے الزامات کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم عسکریت پسندی، نظریاتی پختگی اور انقلابی ثقافت کی تعمیر نو سے متعلق سوالوں کی طرف بھی واپس لوٹیں۔
لہٰذا کمیونزم کے سوال کو ”پیداوارکی تجربہ گاہ“ کے دل میں اٹھانا پڑیگا۔ بورژوا سیاسی معیشت کے خلاف، مارکس نے بڑے پر زور اور واضح انداز میں کہا کہ ”مزدور مادہ ہے اور قدر کا بے حد پیمانہ ہے، لیکن اس کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ استحصال اور تسلط ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوگئے ہیں جسکی وجہ سے معاشرتی غیض و غضب جنم لیتا ہے، جو تضاد استحصال اور تسلط کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہوتا ہے وہ جتنا معاشرتی ہوتا ہے اتنا ہی انفرادی حیثیت کا مالک بھی ہوتا ہے۔ جو مارکیٹ میں پیسہ رکھنے والے کے ساتھ براہ راست آمنے سامنے آتا ہے، حقیقت میں وہ محنت مزدوری نہیں، بلکہ مزدور ہے“۔ یہ مزدوروں کی صلاحیتیں ہی ہیں جو بیک وقت اپنائی اور دبائی جاتی ہیں، ان کی استحصال سے نجات کی صلاحیت، بیک وقت پنپتی بھی ہے اور بکھرتی بھی ہے، یہ ہی وہ متضاد عمل ہے جو مزدوروں کو کام کے دن کو کم کرنے کے لئے جدوجہد کرنے پر مجبور کرتا ہے اور آخر کار سرمایہ کاری کے خلاف لڑنے کا شعور اور صلاحیت بھی مہیا کرتا ہے۔
ہمارے پاس فی الوقت، ایسا کمیونسٹ پروگرام نہیں ہے جو طبقاتی جدوجہد اور اس کے اداکاروں کو بیرونی اور اندرونی دونوں سطحوں پر جوڑ سکے۔ حکمت عملی کا سوال ان سب لوگوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے، جو سرمایہ داری کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جو انقلابی نقطہ نظر کو مناسب قرار دیتے ہیں۔ حکمت عملی کا سوال سرمائے اور اسکی مخالفت میں اٹھنے والی تحریکوں کے تاریخی عمل کی دشواری اور اس کی پیچیدگی کو سمجھنے سے شروع ہوتا ہے۔ انسانیت ابھی تک اپنے بننے کے عمل اور مستقبل پر اجتماعی مہارت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اب معدومیت کے خطرے کے زیر اثر ہمیں اس بھاری کوشش کو کسی مزید تاخیر کے بغیر انجام دینا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک متبادل کی تعمیر نہ صرف کسی اور دنیا کی نظریاتی وسعت میں قائم ہے، بلکہ ایک طرف، اس کوایک ایسے منصوبے سے مربوط کرنے کی صلاحیت میں ہے جوموجودہ نظام کو بنیادی سطح پر تبدیل کر دے اوردوسری طرف، اس منصوبے سے جڑے لوگوں کی اجتماعی حرکت اور انفرادی خواہشات کو بھی ساتھ لے کر چلے۔
پروجیکٹ اور مزاحمت، ان دونوں فریقوں کو ایک مربوط منصوبے میں لانا ایک عظیم سیاسی کام ہے۔ یہ سیا سی کام ثالثی کی ایجاد کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ ثالثی کا محض مطلب صلح کرانا نہیں، نہ ہی اسکا مطلب مراحل ہیں، بلکہ ثالثی کا پورا عمل زندہ حرکت پر مشتمل ہے۔ یہ عمل تنظیم کی جمہوری شکلوں کو منظر عام پر لانے، تحرک اور جدوجہدمیں ربط قائم رکھنے اور ایک وسیع اتحاد کے زیر سایہ اجتماعی طور پر، ایک ایسے پروگرام کی تشکیل ہے جو سرمایہ دارانہ ریاستی جبر اور استحصال کا وسیع سطح پر مقابلہ کر سکے۔ مختلف ترقی پسند تنظیموں، تحریکوں اور گروہوں کے مابین ثالثی (Mediations)، جو زیادہ درست معنوں میں یونائیٹڈ فرنٹ کہلاتا ہے، کی بنیاد پر بننے والا اتحاد ہی بائیں بازو کی ایک سرگرم ثقافت کو تشکیل دے سکتا ہے۔ ایک ایسی ثقافت جو معاشرتی اور سیاسی طرز زندگی کی تعمیر نو میں حصہ لے۔ مختصرا ًیہ کہ آج کے دور میں طبقاتی جدوجہد کی متعدد شکلیں ہیں جو اس کے حالات اور حتمی شکلوں اور ان کے لازم و ملزوم کردار سے آگاہ ہیں۔