پاکستان

کرونا بحران کے خلاف پاکستانی بائیں بازو کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟

عمار علی جان / زاہد علی

ترجمہ: حسنین جمیل فریدی

ہم تاریخ انسانی کے اس خوفناک بحران سے گزر رہے ہیں جس سے کوئی بھی لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کی ترجیحات غربا اور عوامی فلاح کی بجائے علاقائی تسلط قائم کرنے کی کوششوں پر مبنی ہیں جو اس بحران میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس ٹینک، میزائل حتی ٰکہ ایٹم بم تو موجود ہیں مگر مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز، ادویات اور بستر تک موجود نہیں۔

ماضی کے نا اہل ریاستی ڈھانچوں اور بدترین نیت کی بدولت آج ہمارا ریاستی ڈھانچہ خود بحران سے گزر رہا ہے۔ ہر شعبہ گہری مایوسی اور تذبذب کا شکار ہے۔ ہماری تہذیب کو بچانے کی علمبردار ریاست نے مشکل کی اس گھڑی میں خود کو نااہل اور ظالمانہ ثابت کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایمرجنسی کی اس صورت حال میں ہمارا معاشرہ بغیر ریاست کے چل رہا ہے اور جو کام ریاست کے ذمہ تھا وہ بھی ہیلتھ ورکرز کو ہی کرنا پڑ رہا ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وقت سیاسی اختلاف کو بھلا کر متحد ہونے کا ہے تاہم حکمرانوں کی عدم تیاری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور نا اہل سیاسی فیصلوں نے ایک چھوٹے مسئلے کو ایک بہت بڑے بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ ماضی میں کئے گئے غلط فیصلوں کی بدولت پیدا ہوئے اس بحران نے انسانیت کی بقا کا سوال سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ علاوہ ازیں ہماری زندگیوں کے اہم ترین فیصلے ہنگامی صورتحال میں ہی ہوتے ہیں لیکن یہ فیصلے سرمایہ دار، فوج اور افسر شاہی کی پروردہ حکومتیں مسلط کرتی ہیں اور حکمران عام عوام کو ان حالات میں سیاست سے باز رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اگر ہمارے مستقبل کے اہم فیصلے ان بحرانوں میں ہو سکتے ہیں تو اس صورت حال میں اپنے سیاسی حقوق کو ترک کرنے کی بجائے اس پر سیاسی سوچ اور نقطہ نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔

کرونا وائرس ایک غیر سیاسی یا غیر جانبدار معاملہ نہیں بلکہ یہ تو اس ملک اور ساری دنیا کے نظام میں موجود سیاسی، معاشی اور معاشرتی تضادات کا مظہر ہے۔ اس لیے اسے عام حالات میں پیدا ہونے والا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صرف یہی نہیں آنے والے دنوں میں اور بھی بہت سے بحران متوقع ہیں جن میں ماحولیاتی آلودگی سر فہرست ہے۔ اس لیے اگر آج اس بحران کو نظر انداز کیا گیا تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

دراصل آج کی دنیا کی اقدار و روایات اور سماجی ڈھانچوں کو تبدیل کر کے ایک نئی دنیا بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نظام آج کی اکثریت کو بنیادی تنخواہیں اور مفت ضروریات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اسی لئے بائیں بازو کا کام نہ صرف ان جائز مطالبات کی مد میں اس فرسودہ نظام کی نا اہلی کا پردہ چاک کرنا ہے بلکہ دیرپا حکمت ِعملی کے ذریعے اپنے علم اور اسکے عمل کی موجودہ ہیت کو سمجھتے ہوئے ایک نیا متبادل بھی تعمیر کرنا ہے۔

کرونا وائرس ایک بحران کی علامت ہے

ریڈ کراس سے منسلک ایک چینی ڈاکٹر کا کہنا ہے ”ہمیں وقت کو روکنا ہو گا، ہمیں تمام معاشی سرگرمیوں کو روکنا ہو گا۔ “ یہ جملہ شاید سننے میں عجیب لگے مگر یہ بالکل درست ہے۔ لاشعوری طور پر اس کا اشارہ سرمائے کی ہو س، اشیا کی بے لگام گردش اور مزدوروں کے استحصال پر مبنی سرمایہ داری نظام کی طرف ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر ہم کرونا وائرس کے مزید پھیلاﺅ کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اشیا کی بے لگام گردش اور متحرک پیداواری عمل کو روکنا ہوگا۔ آسان الفاظ میں مٹی کا گھروندہ گر چکا ہے۔ فریب، دھوکہ دہی اور نفاستوں کی ایک پوری دنیا ختم ہونے والی ہے اور بالآخر ایک بہت بڑی زنجیر ٹوٹنے والی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کرونا وائرس نے پہلے سے موجود اس بحران کو بے نقاب کیا ہے جس کا نام سرمایہ دارانہ معیشت (مارکیٹ اکانومی) ہے۔

پہلے تو ہمیں واضح ہونا پڑے گا کہ یہ کوئی مالی بحران یا کساد بازاری نہیںبلکہ کرونا وائرس نے تو ہمارے معاشی و سماجی ڈھانچے میں موجود تضادات کو مزید آشکار کیا ہے۔ یا اسے اس نظر سے دیکھا جائے جیسے عمران خان کی حکومت دیکھ رہی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ تھوڑے عرصہ بعد اسے ٹھیک کیا جاسکے گا اور توقع کی جا رہی ہے کہ گرم موسم وائرس کو مار ڈالے گا۔ حکومت کے اس کٹھ پتلی تماشے کی وجہ سے ہزاروں اموات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ان سنگین نتائج سے بچنے کیلئے عام معاشی اور معاشرتی زندگی کو از سر نو بدلنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے قبل پاکستان میں معاشرتی اور معاشی زندگی کیا تھی؟

اشرافیہ اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کیلئے یہ ایک معمول کی زندگی تھی جہاں ان کے پاس طے شدہ معمولاتِ زندگی اور اس ملک میں خوشی سے زندگی بسر کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں لیکن محنت کش طبقے کے لئے کرونا سے قبل کی زندگی بھی ایک خوفناک خواب تھا۔ مستقل ملازمین کم سے کم اجرت، معاشرتی تحفظ اور اپنی حفاظت کیلئے احتجاج کر رہے تھے جبکہ دیہاڑی دار مزدور اپنے حقوق کے لئے یہ جانتے ہوئے بھی لڑ رہے تھے کہ ان کی فیکٹری، ورکشاپ یا تعلیمی ادارہ انہیں نوٹس دیئے یا متنبہ کئے بغیر نکال سکتا ہے۔ لہٰذا جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں کرونا سے بچنا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ ہمیں سماجی اور معاشی ڈھانچے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہمارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہمیں بے رحم سرمایہ دارانہ معیشت کے اندر چلنے والی زندگی کے خدوخال تبدیل کرنا ہوں گے جس میں مزدور اور محنت کش کو تکلف پذیر یا استعمال کے بعدپھینکنے والی مخلوق سمجھے جاتاہے۔ اگر ریاست پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرمایہ دار ابھی بھی یہ سوچتے ہیں کہ وہ غریب مزدوروں کی جانوں کی پرواہ کئے بغیر فیکٹریاں، کاروبار اور دیگر پیداواری عمل بند کر سکتے ہیں تو بنیادی طور پر اس کے دو مضمرات ہو سکتے ہیں۔

پہلا نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ دیکھ بھال سے انکار، معاشرتی تنہائی اور خود احتیاطی معیشت کو بہت نقصان پہنچائے گی۔ جب تک کرونا وائرس اپنے عروج پر نہ پہنچ جائے یا وقتی بحران حل نہ ہوجائے معاشرتی حالات کو بحال کرنے کیلئے روزمرہ معاملات کو مزید مدت کے لئے سست روی سے چلانا ہوگا تا کہ وائرس مزید نہ پھیل سکے۔ اگر مزدوروں کو صحت کی مناسب سہولیات، راشن کارڈ اور بنیادی آمدن حاصل نہیں ہوگی تو وہ گھروں میں نہیں رہ پائیں گے۔ وہ کام کرنے کے مواقع تلاش کرنے باہر نکلیں گے جو کہ اس وبا کے پھیلاﺅ کو مزید طوالت دے گا۔ ایک طرح سے یہ وبائی بیماری ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان یا کسی بھی اور جگہ قرنطینہ ہی واحد راستہ ہے اور یہ تبھی ممکن ہے اگر محنت کشوں کو گھر میں رہنے کے تمام وسائل مہیا کئے جائیںکیونکہ ہم جانتے ہیں کہ صحت عامہ کے مشترکہ مفاد کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے ہاتھوں میں پیسہ دینا پڑے گاتا کہ وہ معاشرتی فاصلہ رکھ کرخود کی اور دوسروں کی حفاظت کر سکیں اور غیر ضروری کام کرنے سے پرہیز کریں۔

ایک ایسی معیشت جہاں مزدوروں کی بہت بڑی تعداد معاشی طورپر غیر محفوظ ہے، جہاں ان کی اجرتیں عارضی بنیادوں پر دی جاتیں ہیں وہاں ان کی صحت کی دیکھ بھال کوضروری بنانے کے لئے دولت کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔ کرونا کے اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ دیہاڑی دار مزدور اوراس محنت کش کا خاندان ہے۔ یہاں تو لائم لائٹ، جینریشن اور آﺅٹ فٹرز جیسے برینڈز مزدوروں کو تنخواہ دئے بغیر نکال رہے ہیں۔ یہ ایک طویل اور نا معلوم بحران کی شروعات ہے اور صرف تنخواہوں کا مطالبہ ہی کافی نہیں بلکہ گلی، محلے کی بنیاد پر اپنی مدد آپ کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل بھی ضروری ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

اگر حکومت مزدوروں کی خوراک و صحت جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہی اور فیکٹریاں ان (لائم لائٹ، جینیریشن اور آﺅٹ فٹرز ) جیسے برینڈ ز کے نقش پا پر چلتی رہیں تو بہت جلد مزدور طبقہ لاک ڈاﺅن اور کرفیو کو توڑتے ہوئے اس نئی صورتحال میں اپنی معاشی و سماجی حیثیت جیسے بنیادی سوال اور بنیادی ضروریات کے مطالبات لے کر سڑکوں پر ہو گا۔

ریاست کی جانب سے مزدوروں کی مدد سے انکار یا نااہلی کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ریاست انہیں چھٹی کے ساتھ مطلوبہ تنخواہ، راشن کارڈ اور بنیادی صحت فراہم کرنے میں نا کام رہی تو کرفیو، لاک ڈاﺅن اور معاشرتی تنہائی کے باوجود آنے والے چند ماہ میں وہ خوراک، چھت اور دیگر بنیادی ضروریات کے حصول کیلئے سڑکوں پہ نکل کر احتجاج کریں گے۔

ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کرونا وائرس متعدد بحرانوں کا مجموعہ ہے جس نے صحت عامہ، تعلیم، کم سے کم اجرت، معاشرتی تحفظ کی عدم فراہمی، مزدوروں کے مسلسل استحصال کرتی رینٹئیر ریاست (Rentier State)کا چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ مزدور طبقہ تو پہلے ہی اس استحصالی نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ، طلبہ، خواتین، ڈاکٹرز اور کسان اپنے حقوق کے لیے مارچ کر رہے ہیں۔

موجودہ بحران دولت کی گردش پر پابندیوں کے باعث محنت کشوں کو بنیادی سوال پیدا کرنے کیلئے معاشی جبر کے ڈھانچے کی محض نفی سے آگے بڑھنے پر مجبور کرے گا اور بنیادی سوال پیدا کرے گا کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی تعلقات کو کیسے پرکھا جارہا ہے؟ لہٰذا سرمایہ داری کی دوسری نفی (نفی کی نفی) انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

بہترین حکومت یا دوہری طاقت

بہت سے تجزیہ کار اس بحران کو نااہلی اور بری گورننس کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے۔ حکومت کے بروقت اوراہم فیصلوں پر ہچکچاہٹ نے اس بحران میں اضافہ کیا ہے۔ بہرحال پچھلی سطروں میں وضاحت دی جا چکی ہے کہ کس طرح یہ بحران مخصوص پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ریاست کے مجموعی معاشی رجحانات کا عکاس ہے۔ مزید اہم بات یہ کہ یقین نہیں کہ ہم پرانی صورت حال میں واپس جا سکیں البتہ ریاست اس بحران سے نپٹنے کیلئے مزدوروں کا استحصال ضرور تیز کردے گی۔

لہٰذا ایک ناقابلِ عمل گورننس ماڈل کی عدم موجودگی میں ہمیں متبادل ہونے کی وجہ سے متبادل شکلوں کا تصور شروع کر دینا چاہئے کیونکہ ہم سرمائے کی ہوس اور ریاست کی سرمایہ دارانہ منطق پر یقین نہیں رکھتے۔ اس کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر (کیونکہ اس بحران میں حکومت کو مکمل نظر انداز کرنا بیوقوفی ہے) مگر ریاست کے علاوہ باہر معاشرے میں بھی یکجہتی کے رابطے بنانے چاہیئں۔ اس کے لئے ریاست کی طرف سے نظر انداز کئے گئے علاقوں خصوصاً محنت کشوں کے علاقوں میں نیٹ ورکس بنانے کی ضرورت ہے۔

ایسی یکجہتی کیسے نظر آسکتی ہے؟ اس کے لئے ان جگہوں پر اپنی مدد آپ کے تحت اور رضا کاروں کی ٹیمیں تشکیل دے کر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ متاثر اور غریب افرادکو کھانا اور پناہ گاہیں فراہم کرنا، ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے لئے آواز بلند کرنا، ہیلتھ ورکرز اور ان لوگوں کے درمیان رابطے قائم کروانا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔

اس طرح کی سرگرمیوں کا مقصد کوئی فلاحی یا امدادی کام سے حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہمیں اس طریقہ کار کو سیاسی طور پر بھی سوچنا ہوگا کیونکہ ہم سرمایہ داری سے باہر ایک نئے سماج کی تعمیر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہمیں محنت کشوں اور ان کی تنظیموں کے نیٹ ورکس کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے تا کہ ان کے اندراپنا اعتماد پیدا کر کے ان طبقات کے ساتھ یکجہتی کے جذبات کو بحال کیا جاسکے۔

ریاستی مشینری کی کمزوری کے باعث ہم ایسی صورت حال سے دو چار ہیں جہاں یا تو مستقل معاشرتی زوال اور عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر ہم بھر پور حکمت عملی کے ذریعے دوہری طاقت کے تصور میں واپس جا سکتے ہیں جہاں مزدور طبقہ ادارہ جاتی استحصال کے بغیرخود مختارہو کر اپنی طاقت تعمیر کر سکے۔ مثال کے طور پر، ہم جانتے ہیں کہ اس بحران کے عارضی اختتام کے بعد حکمران طبقات عوام کو بے روزگاری، کم اجرتوں، مہنگائی اور قرضوں کی صورت اس بحران کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کریں گے۔ ایسی صورت حال میں عوام کے پاس واحد دفاع اس جدوجہد کو طوالت دینا ہے جو باہمی امدادی نیٹ ورک کی صورت خود کو منظم کرنے اور مزاحمت کرنے کی صلاحیت پیدا کر کے حاصل ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نیٹ ورکس کی تعمیر کی جائے جہاں محنت کشوں کی تخلیقی صلاحیت کو تعمیر کیا جاسکے۔ خاص طور پر جب لوگ کام پر واپس آجائیں تو ارتکاز سرمایہ سے نمٹنے کیلئے ورکرز کمیٹیوں کی صورت میں ایک معیاری متبادل بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے فیصلہ سازی کرنے والے عناصر سب سے زیادہ ضروری ہیں کیونکہ امیر اور سرمایہ داروں کی سیاست منجمند ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں انتخابات یا کسی بھی بڑی عوامی یا سیاسی سرگرمی کا تصور نہیں کیا جاسکتا (صرف فسادات کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے)۔

کسی بھی بڑی اور عالمگیر سیاست کی عدم موجودگی میں ہمیں مستقبل کے معاشرے کے لئے متبادل نظریہ فراہم کرنے اور اس نظرئیے کی عملی شکل تیار کرنے پر زور دینا چاہیے۔ اگر ہم بڑے نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے علاقائی اور چھوٹے پیمانے پر اس متبادل کی عملی شکل پیش کریں تو ہم موجودہ ڈھانچوں سے نکل کر ایک نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ یقینا لوگ اپنے اوپر عائد نا قابل ِبرداشت شرائط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ورکرز کمیٹیاں‘ امدادی کاموں اور موجودہ نظام کے ساتھ لڑنے میں عوام کی رہنمائی کے لئے تیار ہو سکتی ہیں۔ یہ ہی وہ وقت ہے کہ سوشلزم کے محنت کش نظریات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

عوامی راج

پاکستان کے بائیں بازو کے لئے اب جرات مندانہ خیالات کو اپنانے کا وقت آن پہنچا ہے کیونکہ صرف ریاست سے مطالبات کرنے کی مجبوری کا عام طریقہ ختم ہو چکا ہے۔ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ موجودہ سرمایہ دار لالچی حکمران طبقہ، آئی ایم ایف زدہ معیشت، معیشت کے اہم شعبوں کی نجکاری اور ایک فرسودہ متجاوز ریاست (Overdeveloped State) اس بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اور یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اس ریاست کو محنت کش طبقات کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمیں اس تحریک کا آغاز اسی بحران کے درمیان ہی میں کرنا ہوگا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان محنت کش طبقات کے ساتھ کھڑے ہوں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ ریاست اور فیکٹری مالکان نے انہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ہمیں اس بحران سے نمٹتے ابھی بھی بہت دیر ہو چکی ہے۔ ایک طرف ہمیں اپنی کمیٹیوں کے ذریعے کرونا جیسی وبا سے بچنے کے لئے بڑے پیمانے پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پیداواری عمل پر مزدور طبقات کی اجارہ داری، خواراک اور وسائل کی منصفانہ تقسیم، صحت اور ادویات پر محنت کشوں کے کنٹرول کے لئے سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔

دولت کا یہ بحران سرمایہ داری کی دنیا میں ایک مکمل چھلانگ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمائے کی پیداوار اور گردش کی عدم موجودگی میں پاکستان جیسی جنوبی ایشیائی متجاوزریاست تباہی کے دہانے پہ ہے۔

عوامی راج کا نعرہ آج کے دور کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ آئیں‘ ایک نئے عزم، ہمت اور حوصلے کے ساتھ اس وبائی مرض سے ٹکراتے ہوئے ایک متبادل طاقت کیلئے منظم ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کو بطور رضا کار تیار کریں۔ اردگرد علاقوں میں محنت کشوں کیساتھ سماجی یکجہتی کا مظاہرہ کریں، مقامی سطح پر خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کا سامان مہیا کریں، عوامی طبی مرکز قائم کریں، محنت کشوں اور ان جیسے دیگر طبقات کیلئے ضروریات کی فراہمی کیلئے نظام وضع کریں۔ اس لمحے میں ہمارے پاس ماضی کی زنجیروں کے سوا کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ہمارے پاس جیتنے کو ایک نئی دنیا ہے۔

Ammar Ali Jan
+ posts

عمار علی جان حقوق خلق موومنٹ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔

Zahid Ali
+ posts

زاہد علی حقوق خلق موومنٹ کے مرکزی رہنما ہیں اور طلبہ اور محنت کش طبقے کو انقلابی نظریات پہ منظم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔